رسائی کے لنکس

گیان واپی مسجد تنازع: مبینہ شیولنگ کے سائنسی تجزیے کی استدعا مسترد


بھارت کے شہر وارانسی کی ضلعی عدالت نے گیان واپی مسجد تنازع میں ہندو فریقوں کی جانب سے مسجد کے حوض میں پائے جانے والے مبینہ شیولنگ کے سائنسی جائزے (کاربن ڈیٹنگ) کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

جج اے کے وشویشا نے 22 ستمبر کو یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کی تھی اور دیگر فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہیں کوئی اعتراض ہے تو وہ عدالت میں جمع کرائیں۔

انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی نے کاربن ڈیٹنگ کی مخالفت کی تھی۔ عدالت نے اس معاملے پر منگل کو سماعت مکمل کی اور جمعے کا دن فیصلہ سنانے کے لیے مقرر کیا تھا۔کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے آثارِ قدیمہ کے نمونے حاصل کر کے سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جاتا ہے کہ یہ کتنے پرانے ہیں۔

ہندو فریق کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں گے جب کہ مسلمانوں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے کہ آج کے فیصلے نے ایک نئے ممکنہ تنازع کا دروازہ بند کر دیا۔

واضح رہے کہ عدالت کے حکم پر گیان واپی مسجد کے سروے اور ویڈیو گرافی کے دوران ہندو فریقوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مسجد کے حوض میں شیو لنگ کی دریافت ہوئی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ وہ فوارہ ہے۔ سپریم کورٹ نے اس متنازع شے کے تحفظ کا حکم دیا تھا جس کے بعد حوض کو ڈھانپ دیا گیا ہے۔

ہندو فریق چاہتے تھے کہ اس متنازع شے کی سائنسی تحقیق کی جائے جسے کاربن ڈیٹنگ کہتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ شیو لنگ ہی ہے۔

سماعت کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ ممتاز احمد نے کاربن ڈیٹنگ کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اگر اس عمل کے دوران مذکورہ شے کو نقصان پہنچا تو اس کے تحفظ کے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی۔

جج اے کے وشویشا نے اس دلیل کو تسلیم کیا کہ مبینہ شیو لنگ کی سائنسی تحقیق سے اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

قانونی امور کی رپورٹنگ کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’لائیو لا‘ کے مطابق جج نے کہا کہ بھارت کے محکمہ آثارِ قدیمہ کو مبینہ شیو لنگ کی عمر اور ہیئت کے تعین کا حکم دینا مناسب نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ اس حکم سے مقدمے میں شامل سوالات کا تعین بعید از امکان ہے۔

سپریم کورٹ نے 17 مئی کو اس سلسلے میں ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حوض کے اندر پائی جانے والی شے کے تحفظ کا حکم دیا تھا۔ اس نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مسلمانوں کو وضو کرنے اور عبادت کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔

مسلم فریق کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصل کیس مسجد کی مغربی دیوار پر واقع شرنگار گوری کی پوجا کے سلسلے میں ہے اور مسجد کی عمارت کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بعض ہندو فریقوں نے بھی مبینہ شیو لنگ کی کاربن ڈیٹنگ کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ غیر ضروری ہے اور اس عمل سے اس شے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ جن پانچ ہندو خواتین نے شرنگار گوری کی یومیہ پوجا کی اجازت طلب کی تھی ان میں سے چار نے کاربن ڈیٹنگ کا مطالبہ کیا تھا۔

قبل ازیں ہندو فریقوں میں سے ایک فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے عدالت میں یہ دلیل دی ہے کہ ہندو فریق مسجد احاطے میں موجود دیدہ و نادیدہ مورتیوں کی پوجا کرنے کا حق چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے ’شیو لنگ‘ پانی سے ڈھکا ہوا تھا۔ لیکن جب پانی نکالا گیا تو وہ نظر آنے لگا۔ لہٰذا وہ بھی ہمارے مقدمے کا ایک حصہ بن گیا۔

عدالت کی جانب سے کاربن ڈیٹنگ کے مطالبے کو مسترد کر دیے جانے کے بعد ہندو فریق کے ایک وکیل مدن موہن یادو نے کہا ہے کہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

ہندوؤں کی ایک تنظیم آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپانی مہاراج کا کہنا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے ہندوؤں کے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کی مخالفت کی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے بقول حوض میں جو چیز پائی گئی ہے وہ شیو لنگ ہی ہے۔ اس کی کاربن ڈیٹنگ کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں مقدمے بازی کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس معاملے کو حل کرناچاہیے۔ اس میں کسی کی فتح یا شکست کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔


سوامی چکرپانی نے میڈیا کے ذریعے وارانسی عدالت کے آج کے فیصلے کو ہندوؤں کی شکست یا حوصلہ شکنی اور مسلمانوں کی فتح یا حوصلہ افزائی قرار دینے سے اتفاق نہیں کیا۔

انہوں نے مسلم فریق کی اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا کہ اصل مقدمہ گوری شرنگار کی پوجا کے سلسلے میں ہے، مسجد کے اندر پوجا کرنے کے بارے میں نہیں۔ ان کے مطابق جسے گیان واپی مسجد کہا جا رہا ہے وہ مندر ہے اور ہندو اس کی بحالی چاہتے ہیں۔

مسلمانوں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ مبینہ شیو لنگ کی کاربن ڈیٹنگ کے مطالبے سے ایک نیا تنازع پیدا کرنے کی جو کوشش کی جا رہی تھی اس کا دروازہ عدالت نے بند کر دیا۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بورڈ نے کاربن ڈیٹنگ کی مخالفت کی تھی کیوں کہ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ اصل مقدمہ تو مسجد کی مغربی دیوار پر پوجا کے سلسلے میں ہے۔ لیکن اب ہندو فریقوں نے شیو لنگ اور اس کی کاربن ڈیٹنگ کا مطالبہ کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ بالکل مناسب ہے۔ بلکہ مسجد کے سروے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہندو فریقوں نے اس کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ ان کے بقول یہ سب نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش ہے۔

ان کے مطابق عدالت کو یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ مسجد کی ہیئت تبدیل کرے۔ 1991 میں جو عبادت گاہ تحفظ قانون بنایا گیا تھا اس کے تحت عدالت کو مسجد کا سروے کرانے کا بھی کوئی حق نہیں تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG