رسائی کے لنکس

بھارت: جناح کی تصویر پر علی گڑھ یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر زیڈ کے فیضان نے کہا کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال میں 1938ء سے آویزاں ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے لائف ممبر تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ کو اس پر فخر ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک بار پھر تنازع کا ہدف بن گئی ہے۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رکنِ پارلیمنٹ ستیش گوتم کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ یونین ہال میں لگی بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی تصویر پر اعتراض اور اس کو وہاں سے ہٹانے کے مطالبے نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا ہے۔

تصویر کے خلاف ہندو احیا پسند تنظیموں ہندو جاگرن منچ، ہندو یووا واہنی اور بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی کے کارکنوں نے بدھ کو مسلم یونیورسٹی میں گھسنے کی کوشش کی۔

مشتعل مظاہرین نے محمد علی جناح اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کے پتلے نذرِ آتش کیے اور ان کے خلاف نعرے لگائے۔

جب یونیورسٹی کے طلبہ نے واقعے کے خلاف احتجاج کیا تو مبینہ طور پر پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے طلبہ یونین کے صدر اور سیکریٹری اور دو سابق صدور سمیت تقریباً ایک درجن طلبہ زخمی ہوگئے۔

اطلاعات ہیں کہ ہندو تنظیموں کے کارکن مسلح تھے اور پولیس اہلکاروں کے ہمراہ مرکزی دروازے 'بابِ سرسید' کے راستے یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جب اس کی اطلاع طلبہ کو ہوئی تو انھوں نے وہاں پہنچ کر اس کی مخالفت کی۔ جب طلبہ کی تعداد بتدریج بڑھتی گئی تو پولیس اہلکار ہندو کارکنوں کو اپنے ساتھ لے کر انھیں بچاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔

بعد ازاں یونیورسٹی کے طلبہ نے سول لائنز تک مارچ کیا اور پولیس اسٹیشن جا کر اس اقدام کی مخالفت اور ہندو کارکنوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

طلبہ کا الزام ہے کہ پولیس نے ہندو کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے ان کا ساتھ دیا اور انھیں بچانے کی کوشش کی۔

پولیس اس الزام کی تردید کر رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے کوئی جانب داری نہیں برتی۔ حکام کا کہنا ہے کہ طلبہ نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔

یونیورسٹی کے کیمپس میں تاحال کشیدگی ہے اور وہاں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

مسلم یونیورسٹی کے ترجمان پروفیسر شافع قدوائی نے بتایا ہے کہ بدھ کی سہ پہر دائیں بازو کے کارکن یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچے جنہوں نے قابلِ اعتراض نعرے لگائے، پتلے نذرِ آتش کیے اور سکیورٹی والوں سے ہاتھا پائی کی۔

ترجمان کے مطابق مظاہرین کا سامنا یونیورسٹی کے طلبہ سے ہوا جس کے بعد طلبہ نے واقعے کے خلاف پولیس اسٹیشن تک مارچ کیا۔ احتجاجی طلبہ کے خلاف پولیس کی کارروائی میں تقریباً ایک درجن طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔

پروفیسر قدوائی نے یہ بھی کہا کہ محمد علی جناح یونیورسٹی کے بانیوں میں سے ہیں اور ان کی تصویر ہندوستان کی آزادی سے قبل سے یونیورسٹی میں لگی ہوئی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر زیڈ کے فیضان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس ایکشن کو انتہائی غیر دانش مندانہ، جانب دارانہ، جارحانہ اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب چند شرپسند یونیورسٹی اور محمد علی جناح کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مسلم یونیورسٹی کی طرف بڑھ رہے تھے تو پولیس نے ان کو یونیورسٹی کے صدر دروازے 'بابِ سید' تک پہنچنے کیسے دیا؟

زیڈ کے فیضان نے الزام لگایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ شرپسند وہاں تک پولیس تحفظ میں پہنچے تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس پورے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شرپسندوں کا ہدف رہی ہے لیکن ملک میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔

زیڈ کے فیضان نے مزید کہا کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال میں 1938ء سے آویزاں ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے لائف ممبر تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ کو اس پر فخر ہے۔

محمد علی جناح کی تصویر کے بہانے مسلم یونیورسٹی کو ہدف بنانے کی کوشش کی کئی حلقوں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔

یہاں تک کہ اتر پردیش کی ریاستی حکومت میں بی جے پی کے ایک وزیر سوامی پرساد موریہ نے بھی علی گڑھ کے بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ کے مطالبے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایک گھٹیا اقدام قرار دیا ہے۔

مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر مشکور احمد عثمانی کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین کے پروٹوکول کے تحت لگائی گئی ہے کیوں کہ یونین یونیورسٹی میں جس کا بھی خیر مقدم کرتی ہے اس کی تصویر آویزاں کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یونین ہال میں گاندھی جی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین سمیت متعدد رہنماؤں کی تصویریں آویزاں ہیں۔

کئی دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی بی جے پی اور اس کے کارکنوں کی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا ہے کہ آزادی کے 70 سال بعد جناح کی تصویر ہٹانے کا خیال آیا۔ تاہم انھوں نے اس پر اظہارِ اطمینان کیا کہ بی جے پی کے اندر سے ہی بعض افراد اس کارروائی کی مخالفت کر رہے ہیں۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے گفتگو کرتے ہوئے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ 2019ء کے عام انتخابات سے قبل ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ محمد علی جناح کو گاندھی جی نے ہندو مسلم بھائی چارے کا سفیر کہا تھا۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی بنانے میں جناح کا بھی کردار رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج وہ لوگ جناح کی مخالفت کر رہے ہیں جن کا ملک کی آزادی میں کسی قسم کا کوئی کردار ہی نہیں رہا۔

ایک اطلاع کے مطابق سردست محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال سے ہٹا دی گئی ہے۔ ایک خبر میں طلبہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صفائی کی وجہ سے ہٹائی گئی جسے پھر لگا دیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG