امریکہ میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے کو آرڈینیٹر فار سٹریٹیجک کمیونیکیشنز جان کربی نے کہا ہے کہ اس سال جی 20 کے اجلاس میں توجہ خود جی 20 پر رہے گی جیسا کہ یہ دنیا بھر میں بہتر اقتصادی تعاون کا فورم ہے۔
جان کربی نے یہ بات وائس آف امریکہ سے ایک تازہ انٹرویو میں کہی جو جی 20 اجلاس کے لیے ان کے بھارت جانے سے پہلے لیا گیا۔ G20 ممالک کا اجلاس 9اور10 ستمبر کو نئی دہلی میں ہوگا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اطلاعات ہیں کہ چین کے صدر شی جن پنگ اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ امریکہ کے صدر بائیڈن اس میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے ہیں تو کیا اس سے پہلے امکان تھا کہ اس موقعے پر شی بائیڈن ملاقات ہوتی اور کیا اس پر امریکہ کو کوئی مایوسی ہوئی ہے؟۔
جواب میں جان کربی نے کہا کہ جہاں تک انہیں علم ہے اس بارے میں کوئی باضابطہ فیصلہ سامنے نہیں آیا کہ چینی صدر بھارت جائیں گے یا نہیں،" چنانچہ یہ ہم ان پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ ایک اہم فورم ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس میں شریک ہوں گے۔"
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق صدر بائیڈن کے جی 20 اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی جانے کا ایک مقصد یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ زور دیں گے کہ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی بینک کی استعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ دنیا میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیوز کے متبادل ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرضے فراہم کر سکیں۔
اس بارے میں یورپ میں، مغربی ممالک نے اپنا منصوبہ شروع کیا جسے ابتداء میں Build Back Betterکا نام دیا گیا اور اب اسے PGII کا نام دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے جان کربی سے سوال کیا کہ اب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دینا کیا کسی حکمت عملی کی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتاہے ؟
جواب میں جان کربی نے کہا کہ نہیں یہ کسی حکمت عملی کی تبدیلی نہیں بلکہ اسی کا تسلسل ہے جو صدر بائیڈن اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سے کہتے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا،"صدر کا خیال ہے کہ اعداو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتصادی خوشحالی کے لیے یہ طریقہ کار اندرونِ ملک کارگر ہے۔ جسے وہ بائیڈنومکس کہتے ہیں یعنی بنیاد سے شروع کرکے اوپر تک کی تعمیر اور ہو سکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی طور پر بھی کام کر جائے۔"
جان کربی نے PGII کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی معیشتوں پر دباؤ صرف یو کرین کی جنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ دنیا کے جنوبی حصے میں جو ترقی پذیر ممالک زیریں ڈھانچے میں بہتری اورسرمایہ کاری کے متبادل تلاش کر رہے ہیں اوران کا حصول چین کے جاری کردہ قرضوں کی شرحِ سود کی زیادتی کی وجہ سے بے حد مشکل ہو گیا ہے کیونکہ جب یہ ممالک وقت پر اپنے قرضے ادا نہیں کر سکتے تو انہیں جرمانے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
کربی نے کہا، جی 20 اور جی7 کے رہنما اور صدر بائیڈن،اس کے متبادل فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یوکرین کی جنگ سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک، خواہ وہ اقتصادی یا غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے، افراطِ زر کے باعث یا بے روزگاری کی وجہ سے متاثر ہوئے ہوں، ان کے پاس کوئی متبادل ہو کہ وہ اپنے مسائل حل کر سکیں۔
جی 20 اجلاس کے دوران بائیڈن اور شہزادہ سلمان کی ملاقات
اس سوال کے جواب میں کہ آیا جی 20 اجلاس کے موقعے پر صدر بائیڈن اور سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات کا امکان ہے؟ جان کربی نے کہا کہ صدر سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ہماری سٹریٹیجک شراکت داری بہت اہمیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا،" یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ یمن میں امن ممکن ہو سکا۔ ہم اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات معمول پر لانے کے سلسلے میں بھی کچھ کام کر رہے ہیں ۔سعودی عرب کے ساتھ پیش رفت کے مواقعے میں اضافہ صدر بھی چاہیں گے مگر ابھی کو ئی طے شدہ پروگرام نہیں ہے۔"
(ٹریسی رھوڈز وائس آف امریکہ)
فورم