چین کی ایک عدالت نے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اور صدر شی جن پنگ کے شدید ناقد رین زیجیانگ کو کرپشن، رشوت ستانی اور عوامی پیسے میں غبن کے الزامات پر 18 برس قید کی سزا سنا دی ہے۔
رین زیجیانگ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اندرونی حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مارچ میں صدر شی جن پنگ کے کرونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات پر تنقیدی کالم لکھنے کے بعد وہ منظر نامے سے اچانک غائب ہو گئے تھے۔
منگل کو بیجنگ کی انٹرمیڈیٹ پیپلز کورٹ نمبر دو نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ رین عوامی پیسے میں 74 لاکھ امریکی ڈالر کے برابر رقم کے غبن کے مرتکب قرار پائے ہیں جب کہ ملزم نے ساڑھے بارہ لاکھ چینی یوآن رشوت لینے کا اعتراف بھی کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق 69 برس کے رین نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا ہے اور وہ اپنے خلاف سنائے گئے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنا نہیں چاہتے۔
عدالت نے رین زیجیانگ پر 42 لاکھ یوآن کا جرمانہ بھی کیا ہے۔
رین چینی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے پراپرٹی ڈویلپر 'ہویان' گروپ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ حکمرانوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے وہ 'بگ کینن' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی کے ڈسپلنری ڈیپارٹمنٹ نے اُن کے خلاف اپریل میں تفتیش شروع کی اور گیارہ ستمبر کو اُن کا ٹرائل شروع ہوا۔
چین کی ٹوئٹر کی طرح کی ایپ 'ویبو' پر رین کے لاکھوں فالورز تھے۔ تاہم ان کا اکاؤنٹ 2016 میں حکام نے بند کر دیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکن صدر شی اور کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے کرپشن کے الزامات کو مخالفین کو خاموش کرانے کا حربہ قرار دے رہے ہیں۔
سال 2012 میں صدر شی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چین میں سول سوسائٹی پر کریک ڈاؤن میں تیزی آ گئی ہے۔ آزادیٔ اظہار کی پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے اور سیکڑوں کارکنوں اور وکیلوں کو قید کیا گیا ہے۔