رسائی کے لنکس

اردو کا منفرد شاعر یاس یگانہ چنگیزی


اردو کا منفرد شاعر یاس یگانہ چنگیزی
اردو کا منفرد شاعر یاس یگانہ چنگیزی

یاس یگانہ کو سمجھیئے تو وہ یکتائے روزگار ہیں ورنہ ان کا نام تو بہت ہی طویل ہے یعنی مرزا واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی لکھنوی ثم عظیم آبادی۔ ان کو اپنے یکتا ہونے کا احساس تھا اسی لیے وہ خود ہی کہتے ہیں:

کلام یاس سے دنیا میں ایک آگ لگی
یہ کون حضرتِ آتش کا ہم زبان نکلا

یاس یگانہ کی پیدائش 17 اکتوبر 1884ء کو پٹنہ میں ہوئی تھی جسے اس زمانے میں عظیم آباد کہا جاتا تھا۔ وہ خود اپنی جائے پیدائش کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’شہر عظیم آباد محلہ مغلپورہ میرا مولد ہے جو تیموریوں، چغتائیوں اور قزلباشوں کا مسکن تھا۔ جہاں اعلیٰ درجے کے مہذب، امرا، شرفا بستے تھے۔ وہاں اول درجے کے چھٹے ہوئے شریف بدمعاش بھی اودھم مچایا کرتے تھے۔

ابتدائی تعلیم انہوں نے مغلپورہ کے مدرسے میں حاصل کی تھی اور انگریزی تعلیم کے لیے عظیم آباد کے مشہور و معروف محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ سٹی میں داخل ہوئے۔

خدا داد صلاحیت اور فطری ذہانت کے سہارے اسکول کے درجات میں وہ اول آتے اور وظیفے، تمغے اور انعامات پاتے رہے۔ وہیں سے انہیں مذاقِ شعر و سخن کی بھی تربیت ملی اور بیتاب عظیم آباد ی سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ سنہ 1903ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد معاش کی جستجو میں مصروف ہو گئے، جس میں انہیں در در کی خاک چھاننی پڑی۔ چونکہ ان کی شادی لکھنؤ میں ہوئی تھی، اس لیے وہ لکھنؤ میں جا بسے لیکن وہاں انہیں جو تکلیفیں اٹھانی پڑیں اس کا بیان بھی مشکل ہے۔ حالانکہ وہ خود ہی کہتے ہیں:

لکھنؤ کے فیض سے ہیں دو دو سہرے میرے سر
اک تو استادِ یگانہ، دوسرے داماد ہوں

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنی شاعری میں یگانہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ وہ راہ ترک کر دی جو پہلے سے مستعمل تھی، اس لیے لکھنؤ اسکول میں آتش کے بعد یگانہ ہی سب سے منفرد شاعر ہیں، جن کی آواز سب سے الگ محسوس ہو تی ہے۔

یاس یگانہ کا کلام ان کے مختلف مجموعوں اور اس زمانے کے رسالوں میں بکھرا ہوا تھا۔ ان اوراقِ لخت لخت کو نام ور محقق مشفق خواجہ نے اکٹھا کر 2003ء میں کلیاتِ یگانہ شائع کی، جس نے یگانہ کی شاعرانہ شخصیت کی بازیافت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یگانہ کا انتقال چار فروری کی صبح لکھنؤ میں ہوا۔ لیکن ان کی زندگی کا یہ باب اتنا المناک ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں دوارکا داس شعلہ نے لکھا ہے:

’’ آخری وقت میں مرزا صاحب پیلا مکان شاہ گنج لکھنؤ میں بالکل تنہا تھے۔ یعنی ملازم اور سسرالی اعزا کے سوا بیوی، بچوں میں سے کوئی بھی آس پاس نہیں رہ گیا تھا۔ عارضہٴ دمہ کے سبب ان کی سانسیں اکھڑی اکھڑی رہتی تھیں، پیروں پر ورم آگیا تھا اور ان کو کامل یقین ہو چکا تھا کہ اب وہ جادہٴ زندگی کی آخری منزل میں ہیں۔‘

تین فروری کی شب 11 بجے مرزا صاحب نے چائے طلب کی کچھ دیر بعد تھوڑا سا پانی پیا اور بستر پر دراز ہو گئے۔ چار فروری کی صبح جب ملازم کی اچانک چیخ گونجی تو مرزا نقوی اور دیگر لوگوں کو مرزا صاحب کی موت کا علم ہوا۔ موت کے صحیح وقت کا علم کسی کو بھی نہ ہو سکا۔ ان کی وفات چار فروری سنہ 1956کو ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 73سال تھی۔

اگرچہ مرزا صاحب کی موت کو صیغہٴ راز میں رکھا گیا تھا اس کے باوجود مخالفین کو خبر ہو ہی گئی اور وہ لوگ تجہیز و تکفین میں رخنہ اندازی کرنے لگے۔ غسال کو غسل دینے سے منع کر دیا گیا، کربلا کے متولی کو قبر کی زمین دینے سے روکا گیا اور مولانا محمد سعید صاحب نے یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا کہ یگانہ کے جنازے میں شرکت ناجائز ہے۔

بہر حال کسی طور پر جنازے کو غسل دیا گیا اور مولوی احمد علی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازے میں کل چھ افراد شریک تھے۔ یاس یگانہ کو لکھنؤ والوں کے سلوک کا اندازہ تھا اسی لیے انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا:

مزار یاس پہ کرتے ہیں شکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہل لکھنؤ کر تے

یاس یگانہ کا مزار ان کی بیٹی مریم جہا ں نے پختہ بنوا دیا تھا، جس پر ان کا یہ شعر لکھا ہوا ہے:

خود پرستی کیجیئے یا حق پرستی کیجیئے
آہ کس دن کے لیے ناحق پرستی کیجیئے

یاس یگانہ نے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں جو مصیبتیں اٹھائیں وہ بہت کم ادبا و شعرا کے حصے میں آئی ہوں گی۔ اس کے باوجود یگانہ نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔ جس پر ان کا کلام دال ہے:

سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا ایسا خبطِ مذہب کیا

لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا

مزے کے ساتھ ہوں اندوہِ غم تو کیا کہنا
یقیں نہ ہو تو کرے کوئی امتحان اپنا
عجیب بھول بھلیاں ہے منزل ہستی
بھٹکتا پھرتا ہے گم گشتہ کارواں اپنا

یگانہ ایک متنازع شخصیت تھے، اور ان کی طبیعت بھی کچھ ایسی تھی کہ وہ خود بھی ہنگاموں میں گھرا رہنا پسند کرتے تھے۔ لکھنو کے شعرا سے معرکہ آرائیوں کے علاوہ انھوں غالب پر بھی ہاتھ صاف کرنا مناسب سمجھا۔ بات صرف زبانی کلامی یا اکا دکا مضامین ہی پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ یگانہ نے ‘غالب شکن‘ کے نام سے باقاعدہ کتاب بھی لکھ ماری۔ غالب پر تو کیا اس کا کیا اثر ہوتا، خود یگانہ کی مخالفت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔

خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

یگانہ کی خود پسندی کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ ’غالب شکن‘ کے سرورق پر یگانہ نے اس پر اپنا نام میرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی علیہ السلام لکھوایا تھا۔

تاہم ان ہنگامہ خیزی کے باوجود جدید دور میں یگانہ کے ادبی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے اور آج ان کو بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے اہم ترین شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG