رسائی کے لنکس

2019 بھارتی کشمیر کے لیے اہم لیکن مایوس کن سال


جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر بین الاقوامی سطح پر بھی نئی دہلی کو اس اقدام کا دفاع کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر بین الاقوامی سطح پر بھی نئی دہلی کو اس اقدام کا دفاع کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اگرچہ حالیہ برسوں کے مقابلے میں سب سے کم تشدد پیش آیا اور سب سے کم ہلاکتیں ہوئیں لیکن سیاسی لحاظ سے یہ ریاست اور اس کے عوام کے لیے ایک اہم بلکہ غیر معمولی سال ثابت ہوا۔

پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے ایک غیر معمولی لیکن متنازع فیصلے کے تحت اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری کو ختم کیا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست نئی دہلی کے کنٹرول والے علاقے بنا دیا۔

اس اقدام سے نہ صرف ریاست کے اندر سیاسی ہلچل مچ گئی بلکہ پاک۔بھارت تعلقات میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔

بین الاقوامی سطح پر بھی نئی دہلی کو اس اقدام کا دفاع کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ خود بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تقریباً پانچ ماہ سے عائد پابندیوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے اس کی اقتصادیات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

تعلیم اور زندگی کے تقریباً تمام دوسرے شعبے بھی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر لوگوں میں بے چینی اور نا اُمیدی کی ایک ایسی لہر دوڑ گئی ہے جس کا مستقبل قریب میں خاتمہ نظر نہیں آرہا۔

لندن میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرہ
لندن میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرہ

جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاست عملاً بھارت کا ایک صوبہ بن گئی ہے حالانکہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر اب بھی موجود ہے۔

بھارتی حکومت کے متنازع اقدام کے نتیجے میں بالخصوص مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں معمولاتِ زندگی تقریباً پانچ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکے ہیں۔

ایک شہری بابر اقبال کا کہنا ہے، ’’سوشل لائف مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ایک عجیب سا تناؤ ہر سو قائم ہے۔ بہت زیادہ کھلبلی مچی ہوئی ہے، تکلیفیں اُٹھانا پڑی ہیں۔ کھانا پینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں تو کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ ہم سب بے چینی اور ذہنی دباؤ کا شکار گئے ہیں۔‘‘

سرینگر کے ایک سرکاری سکول میں کلاس روم خالی پڑا ہے۔
سرینگر کے ایک سرکاری سکول میں کلاس روم خالی پڑا ہے۔

دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نیز حکومت نے کئی طرح کی بندشیں اور قدغنیں عائد کرکے سیاسی سرگرمیوں کو مسدود کر دیا اور عوامی مزاحمت کا توڑ کرنے کے لیے کئی سخت گیر اقدامات اٹھائے جن میں مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ بھی شامل ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کہتے ہیں، ’’ کشمیر پر بھارت کا رویہ ہمیشہ تردید کا رہا ہے۔ وہ کشمیر کو ایک متکبرانہ طرزِ عمل کے تحت چلارہا ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران آٹھ سے دس ہزار تک لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ بڑے بڑے لیڈر جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں ابھی تک قید میں ہیں، سابق وزرا اور ممبران اسمبلی بھی بند ہیں۔ انٹرنیٹ، پری پیڈ موبائل فون، ایس ایم سروسز ہنوز بند ہیں۔"

پانچ اگست سے مسلسل نافذ کی جانے والی بندشوں، انٹرنیٹ اور فون سروسز پر عائد پابندی اور حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے دوسرے سخت گیر اقدامات اور ہڑتالوں کی وجہ سے اگرچہ زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان، تعلیم، سیاحت، تجارت، ٹرانسپورٹ، باغبانی، صنعت و حرفت اور مال مویشی کے شعبوں کو اٹھانا پڑا ہے۔

کشمیر ایوانِ تجارت و صنعت کا کہنا ہے کہ غیر یقینی اور مخدوش صورتِ حال نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔ کشمیر ایوانِ تجارت و صنعت کے صدر شیخ عاشق اسے معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’’2019 تاجر برادری کے لیے بدترین سال ثابت ہوا۔ ہر ایک نے نقصان اٹھایا اور اب بھی اٹھارہا ہے۔ ہم حال ہی میں ایک رپورٹ منظرِ عام پر لائے جس میں ہم نے کہا ہے کہ چار ماہ کے عرصے کے دوران صرف وادئ کشمیر کے دس اضلاع میں معیشت کو تقریباً اٹھارہ ہزار کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے"۔

ایک کشمیری خاتون سرینگر کی ایک ویران سڑک سے گذر رہی ہے
ایک کشمیری خاتون سرینگر کی ایک ویران سڑک سے گذر رہی ہے

پانچ اگست کے بعد بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر میں اٹھائے گئے سخت گیر اقدامات کے خلاف کئی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے آواز اُٹھائی لیکن خرم پرویز اسے ناکافی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’بین الاقوامی برادری نے رسمی طور پر تو مذمت کی لیکن اس کے آگے کچھ نہیں کیا۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک صورتِ حال ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری کشمیر پر مداخلت نہیں کرتی ہے تو وہ کشمیری عوام کے ساتھ ایک دھوکہ ہو گا۔ اگر کسی ملک کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو اسے اُس ملک کا اندورنی معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اسے ایسا کرنے سے روکے۔‘‘

بھارتی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے بلکہ دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کو تقسیم کر کے دو وفاقی کنٹرول والے علاقے بنائے جانے کے بعد متنازع ریاست میں برسوں سے جاری شورش ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور حالات بہتر گئے ہیں۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں نئی دہلی میں پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کی نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’جموں و کشمیر خاص طور پر وادئ کشمیر کی صورتِ حال بالکل معمول کے مطابق ہے۔ وہاں ایک بھی گولی نہیں چلی۔ کسی بھی شخص کی موت واقع نہیں ہوئی۔‘‘

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG