رسائی کے لنکس

طالبان پر امریکی حملے کے بعد زلمے خلیل زاد کی عبدالغنی برادر سے ملاقات


ملا عبدالغنی برادر سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بدھ کو ٹیلی فون پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔ (فائل فوٹو)
ملا عبدالغنی برادر سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بدھ کو ٹیلی فون پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے طالبان کے سیاسی امور کے رہنما ملا عبدالغنی برادر اور اُن کی ٹیم سے ملاقات کی ہے۔ جس کے دوران امن معاہدے میں پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکی افواج نے بدھ کو گیارہ روز بعد افغانستان میں فضائی کارروائی کرتے ہوئے طالبان کو نشانہ بنایا تھا اور اس حملے کو دفاع میں کی جانے والی کارروائی قرار دیا تھا۔

ملا عبدالغنی برادر سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بدھ کو ٹیلی فون پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔ اس رابطے کے بعد زلمے خلیل زاد کی ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے جمعرات کو طالبان رہنما سے ملاقات کے بارے میں اپنی کئی ٹوئٹس میں ذکر کیا۔

اُن کا بتانا تھا کہ انہوں نے ملا عبدالغنی برادر اور اُن کی ٹیم سے افغانستان میں امن کے لیے آگے بڑھنے پر بات چیت کی۔

اُن کے بقول، "ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کا مقصد افغانستان میں امن کے دیرپا قیام کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔"

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ قیدیوں کے تبادلے میں معاونت فراہم کرنے کی بات پر قائم ہے جس کا ذکر امن معاہدے اور اس کے بعد امریکہ اور طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں بھی کیا گیا تھا۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے مزید کہا کہ ہم اس بات کی حمایت کریں گے کہ دونوں طرف سے قیدیوں کو چھوڑا جائے۔

یاد رہے کہ امن معاہدے میں شامل تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ جس کے تحت طالبان اپنی قید میں موجود ایک ہزار افغان قیدی رہا کریں گے اور اس کے جواب میں 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

زلمے خلیل زاد نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ "بین الافغان مذاکرات کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانا چاہیے۔ میں افغانوں سے کہوں گا کہ اُن کے لیے یہ تاریخی موقع ہے اور وہ سب سے پہلے ملک کو سامنے رکھیں اور آگے بڑھیں۔"

اشرف غنی کا زلمے خلیل زاد سے ملنے سے انکار

امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ زلمی خلیل زاد امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد بدھ کو کابل پہنچے تھے۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بدھ کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے تھے۔

گزشتہ روز انہوں نے کئی افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں جن میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ اور سابق صدر حامد کرزئی شامل تھے۔

زلمے خلیل زاد کی چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات میں موجود حاجی دین محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے امن کے معاملے پر مشترکہ طور پر کام کرنے پر زور دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خلیل زاد نے ملاقات میں کوئی پیشکش سامنے نہیں رکھی کہ کس طرح مشترکہ طور پر کام کیا جائے۔

افغانستان میں جھڑپیں

افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کے دو اضلاع میں دو مارچ کو طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔

مقامی پولیس کے مطابق طالبان نے پنجواہی اور میوند کے علاقوں میں اُن کی پانچ پوسٹوں پر حملے کیے تھے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان کارروائیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ سے ہونے والے امن معاہدے کے تحت ان کے مجاہدین غیر ملکی فورسز پر حملے نہیں کریں گے لیکن افغان حکومتی فورسز کے خلاف اُن کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

دوسری جانب افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے بدھ کو اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ صوبہ ہلمند میں فضائی کارروائی کی گئی جس میں طالبان کے اُن جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا جو افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کی چوکی کو نشانہ بنا رہے تھے۔

کرنل سونی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا مقصد اُنہیں افغان فورسز پر حملے سے روکنا ہے۔

XS
SM
MD
LG