رسائی کے لنکس

زلمے خلیل زاد کی افغان صدر سے ملاقات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت کا نواں اور تازہ دور ختم ہونے کے بعد امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اتوار کو کابل پہنچے جہاں انہوں نے پیر کو افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی ہے۔

افغان عہدیداروں کے مطابق اس ملاقات میں امریکی سفارت کار نے افغان قیادت کو اس مجوزہ معاہدے کا مسودہ بھی دکھایا جس پر امریکہ اور طالبان کے درمیان اتفاق رائے ہوا ہے۔

خلیل زاد نے ایک ایسے وقت افغانستان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی ہے جب افغانستان کے مختلف علاقوں میں افغان طالبان کے حملوں میں شدت آئی ہے۔

افغان صدر کے معاون وحید ایوب نے اپنے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ امریکی سفارت کار خلیل زاد نے پیر کو افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے صدراتی محل میں ملاقات کی اور ان کے بقول خلیل زاد نے دونوں رہنماؤں کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے مجوزہ سمجھوتے کا مسود دکھایا۔ گو افغان عہدیدار نے اس معاہدے کی تفصیل بیان نہیں کی ہے تاہم ان کے بقول افغان حکومت اس مسودے کا جائزہ لے گی اور زلمے خلیل زاد کے ساتھ تبادلہ خیال جاری رہے گا۔

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم للہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس بات کی توقع تھی کہ ان کے بقول امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں حال ہی میں مکمل ہونے والے مذاکرات کے نویں دور کے بعد فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا ہے۔

رحیم اللہ کے بقول اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی حکام طالبان کے ساتھ ختم ہونے والے بات چیت کے تازہ دور کے بارے میں افغان حکومت کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے انہیں طالبان کے ساتھ مجوزہ معاہدے کے مسودے پر امریکی حکومت کی رائے حاصل کرنا ہو گی جس کے بعد اس کے روشنی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا ایک دور ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کار رحیم اللہ کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ افغان حکومت بھی اس مجوزہ معاہدے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرے کیونکہ وہ مذاکرات میں شامل نہیں ہے۔ دوسری طرف طالبان نا تو افغان حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور نا ہی اس سے براہ راست بات چیت پر تیار ہیں۔

اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے مسودے کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئی ہیں تاہم رحیم اللہ کے بقول ان مذاکرات میں دو امور زیر بحث ہیں جن میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کا انخلا اور طالبان اس بات کی ضمانت دیں کہ افغانستان کی سرزمیں کسی دوسرے ملک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔

دوسری طرف افغان حکومت اس بات کی خواہاں ہو گی کہ امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت طالبان افغان حکومت سے بات چیت پر ضامند ہوں اور جنگ بندی کا اعلان بھی کریں۔ تاہم طالبان تاحال افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ نہیں ہیں اور نا ہی جنگ بندی پر تیار ہیں۔

دوسری طر ف قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری رہے گی۔

تاہم رحیم اللہ کے بقول صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے کچھ فوجی مستقل طور پر افغانستان میں موجود رہیں گے۔ اس کے باوجود دونوں فریقیں یہ بھی کہہ رہے کہ معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔ اس لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کے ایک اور دور کے بعد یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے اور فریقین کے درمیان بعض اختلافی امور کو بعد میں طے کیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG