توہینِ عدالت کا ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور

فائل

حکومت کا موقف ہے کہ مجوزہ قانون کا نشانہ عدلیہ نہیں بلکہ اس کا مقصد جمہوریت کوپٹری پر رکھنا اور اداروں کے درمیان تصادم کو روکنا ہے
پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ نے بھی حزبِ اختلاف کے احتجاج کے باوجود توہینِ عدالت کے متنازع ترمیمی بل کی کثرتِ رائے سے منظوری دیدی ہے۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی پہلے ہی مذکورہ بل منظور کرچکی ہے اور اب صدر کے دستخطوں کے بعد 'توہینِ عدالت ترمیمی بل 2012ء' قانون بن جائے گا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور وکلا تنظیمیں مذکورہ بِل کو عدلیہ کے خلاف حکومت کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ لیکن حکومت کا موقف ہے کہ مجوزہ قانون کا نشانہ عدلیہ نہیں بلکہ اس کا مقصد جمہوریت کوپٹری پر رکھنا اور اداروں کے درمیان تصادم کو روکنا ہے۔

پارلیمان کے ایوانِ بالا کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون فاروق ایچ نائیک نے مجوزہ قانون پیش کیا۔ بل کی منظوری کے لیے حکومتی بینچوں کی جانب سے قواعد و ضوابط معطل کرنے کی تحریک پیش کی گئی تو حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت 'مسلم لیگ (ن)' کے ارکان نے اس کی سخت مخالفت کی۔

ن لیگ ارکان کا موقف تھا کہ قواعد معطل کرکے بل کو منظور کرانے کی کوشش غیر ضروری ہے اور بِل کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر مزید بحث کی جانی چاہیئے۔

تاہم، اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود مختصر بحث کے بعد حکومتی بینچوں نے بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا۔ بل کی منظوری کے بعد ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِقانون کا کہنا تھا کہ حکومت عدلیہ کی عزت کرتی ہے اور مجوزہ قانون عدلیہ کے خلاف نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث کی گئی اور ساتھیوں اور حزبِ اختلاف کے اراکین کی تنقید سن کر اس کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بل کے خلاف عدالت میں کوئی پٹیشن آئی تو حکومت اس کا بھی جواب دے گی۔

ن لیگ کا مؤقف تھا کہ قواعد معطل کرکے بل منظور کرنے کی کوشش غیر ضروری ہے ...
...

نئے قانون کے تحت سرکاری عہدے داروں کے کام کی انجام دہی کے سلسلے میں کیے گئے امور توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیں گے جب کہ عدالتوں کے عمومی کام سے متعلق مفاد عامہ اور مہذب زبان میں نیک نیتی سے کیا گیا تبصرہ بھی توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔

ترمیمی بل کے تحت صدر، وزیرِاعظم، چاروں صوبوں کے گورنر و وزرائے اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزرا کو توہینِ عدالت کی کاروائی سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے، جب کہ توہینِ عدالت کے مقدمات میں عدالتوں کو حاصل اختیارات میں بھی کمی کی گئی ہے۔

سینیٹ میں اپنے خطاب میں وزیرِ قانون فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ بِل کے ذریعے حکومت میں موجود افراد کے سرکاری کاموں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور توہینِ عدالت کے نافذالعمل قانون سے متعلق ابہام دور کیے گئے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 'این آر او' سے متعلق مقدمے میں عدالت کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے کے ضمن میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں نااہل قرار دے دیا گیا تھا جس کے باعث انہیں گزشتہ ماہ اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
سرکاری کاموں کو تحفظ اور توہین عدالت کے نافذالعمل قانون سے متعلق ابہام دور کیے گئے ہیں: نائیک ...



ان کی جگہ وزارت عظمیٰ کامنصب سنبھالنے والے راجہ پرویز اشرف سے بھی عدالتِ عظمیٰ نے 'این آر او' فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے متعلق 12 جولائی کوجواب طلب کر رکھا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ توہینِ عدالت کے ترمیمی بِل کی اتنی عجلت میں پارلیمان سے منظوری دراصل وزیرِاعظم کو کسی ممکنہ عدالتی کاروائی سے بچانے کے لیے کی گئی ہے۔