نئے بلدیاتی نظام سے پیپلز پارٹی اور اتحادیوں میں خلیج بڑھنے لگی

گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ

آرڈی نینس کے سیکشن 8 میں بلدیاتی مقاصد کے لیے کراچی کو ایک ضلع قرار دیا گیا ہے اوریہ وضاحت کی گئی ہے کہ ضلع کراچی موجودہ پانچ ریونیو اضلاع پر مشتمل ہوگا جوآرڈیننس کے نفاذ سے پہلے مو جود تھے۔
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام پر پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کے درمیان خلیج ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔نئے بلدیاتی آرڈیننس کی سندھ اسمبلی سے توثیق کی راہ میں اس کے اپنے ہی پرانے اتحادی سینہ تان کر کھڑے ہیں ۔پیر کو بھی دونوں فریقین آئندہ کی حکمت عملی میں مصروف رہے۔

نیا بلدیاتی آرڈی نینس کیا ہے؟

نئے بلدیاتی نظام کے آرڈی نینس کا سرکاری نام ”سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او) 2012ء“ ہے ۔حکومت سند ھ کی جانب سے جاری کردہ اس آر ڈی نینس کی تفصیلات کے مطابق نئے آرڈی نینس کے تحت صوبائی وزیر بلدیات لوکل گورنمنٹ کمیشن کے سربراہ ہوں گے اور صوبائی وزیرخزانہ پی ایف سی کے سربراہ ہوں گے۔آرڈی نینس کے مطابق سندھ کے پانچ ڈویڑنل ہیڈکوارٹرز والے اضلاع میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز قائم کی گئی ہیں اور دیگر 18 اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔

آرڈی نینس کے سیکشن 4 میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ لوکل کونسلز صوبائی حکومت کی مجموعی نگرانی میں کام کریں گی، وہ پراونشل فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں گی اور وفاقی اور صوبائی قوانین پر عملدرآمد کی پابند ہوں گی ۔

آرڈی نینس کے سیکشن 8 میں بلدیاتی مقاصد کے لیے کراچی کو ایک ضلع قرار دیا گیا ہے اوریہ وضاحت کی گئی ہے کہ ضلع کراچی موجودہ پانچ ریونیو اضلاع پر مشتمل ہوگا جوآرڈیننس کے نفاذ سے پہلے مو جود تھے ۔آرڈی نینس میں یہ بھی واضح کیاگیا ہے کہ بعض صوبائی محکمے صرف میٹروپولیٹن کارپوریشن کومنتقل کیے گئے ہیں اور منتقل کیے گئے محکمے صوبائی حکومت کی پالیسی پر عملدرآمدکرنے کے پابند ہوں گے۔

آرڈیننس کے مطابق بلدیاتی اداروں کا تین سطحوں والا ڈھانچہ وہی ہوگا جو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈ نینس 2001ء میں ضلع اور شہری حکومتوں میں تھا ۔ اس کے صرف نام تبدیل کردئیے گئے ہیں۔ شہری اور ضلعی حکومتوں کی بجائے میٹروپولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز ہوں گی۔ تعلقہ/ٹاوٴن میونسپل کونسلز اوریونین کونسلز بھی 2001 والے نظام کی طرح ہوں گی البتہ نئے بلدیاتی اداروں کے فرائض اور اختیارات مختلف ہوں گے۔

نئے بلدیاتی ادارے کمشنری نظام کے ہوتے ہوئے کام کریں گے۔ میٹروپولیٹن کونسلز کے سربراہ منتخب میئر اور ڈپٹی میئر ہوں گے۔یونسلز کی مدت چار سال ہوگی۔ کونسل میں ایک اپوزیشن لیڈر بھی ہوگا۔ اس طرح ڈسٹرکٹ کونسلز، تعلقہ/ٹاوٴن کونسلز اوریونین کونسلز میں منتخب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ہوں گے۔

نئے بلدیاتی اداروں (کونسلز) کے انتخابات کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو 2001ء والے مقامی حکومتوں کے نظام میں تھا۔یونین کونسلز کے ار کان، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین براہ راست انتخابات سے آئیں گے۔ یونین کونسلز کے ڈپٹی چیئرمین متعلقہ تحصیل / تعلقہ / ٹاوٴن میونسپل کونسل کے ارکان بھی ہوں گے اور وہ تحصیل / تعلقہ / ٹاوٴن کونسل کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا بھی انتخاب کریں گے۔

یونین کونسلز کے چیئرمین متعلقہ میٹروپولیٹن کونسل / ضلع کونسل کے ارکان بھی ہوں گے اور ان کونسلز کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا بھی انتخاب کریں گے ۔تمام کونسلز میں خواتین کی 33 فیصد نشستیں مقرر کی گئی ہیں، اقلیتوں کے لیے بھی مخصوص نشستیں مقررکی گئی ہیں۔ان کے انتخاب کاطریقہ کار بھی پرانا ہے۔

بلدیاتی آرڈی نینس کے مخالفین کا موقف

آرڈی نینس کے مخالفین اور ناقدین کی رائے یہ ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 کے نفاذ سے صوبے میں دہرا بلدیاتی نظام قائم ہورہا ہے۔ آر ڈی نینس میں دیہی اور شہری تقریق موجود ہے مثلاً آرڈیننس میں صوبے کے پانچ ڈویڑنل ہیڈکوارٹرز پانچ بڑے شہروں کو بنایا گیا ہے یعنی کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر۔آرڈی نینس کے تحت کراچی میں 3قسم کا بلدیاتی نظام رائج ہورہا ہے
۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن
۔ ٹاوٴن میونسپل کارپوریشنز اور
۔یونین کونسلز

حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر میں بھی اگرچہ کراچی کی طرح تین سطحوں پر بلدیاتی نظام کام کرے گا لیکن ان چاروں ڈویژنز کے دیگر اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسلز والا نسبتاً کم اختیارات والا نظام ہو گا۔ اس طرح دیگر چار ڈویژنز کا بلدیاتی نظام کراچی ڈویڑنز سے مختلف ہو گا۔

۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کو پہلی مرتبہ وہ امور بھی منتقل کر دیئے گئے جواس سے پہلے صوبائی حکومت کے پاس تھے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس طرح انتہائی بااختیار میٹروپولیٹن کارپوریشنز کا متوازی نظام حکومت قائم ہو جائے گا۔

کراچی کے پانچوں ریونیو اضلاع برقرار رہیں گے لیکن کسی ضلع میں ضلع کونسل نہیں ہو گی۔ ضلع کونسلز کی بجائے 18 ٹاوٴن میونسپل کارپوریشنز ہوں گی۔

حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر کے علاوہ 12دیگر اضلاع میں تیسری طرز کا بلدیاتی نظام ہو گا۔ یہ نظام بھی تین سطحوں پر ضلع کونسل، تعلقہ/تحصیل میونسپل کارپوریشنز اور یونین کونسلز پر مشتمل ہو گا۔ اس طرح ان 12 دیہی اضلاع کا جہاں ڈویڑنل ہیڈکوارٹرز نہیں ہیں، بلدیاتی نظام متعلقہ ڈویڑنل ہیڈکواٹرز والے ضلع سے مختلف ہو گا اور مجموعی طور پر دیگر چار ڈویژنوں کا بلدیاتی نظام کراچی ڈویژن سے مختلف ہو گا۔

صوبے میں کمشنری نظام برقرار رہے گا لیکن لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے برعکس کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز بالترتیب میٹرو پولیٹن کارپوریشنز/ ضلعی کونسلز، ٹاوٴن/ تعلقہ میونسپل کارپوریشنز اور یونین کونسلز کی کنٹرولنگ اتھارٹی نہیں ہوں گے بلکہ یہ بلدیاتی ادارے صوبائی محکمہ بلدیات کی نگرانی میں ہوں گے۔ میٹروپولیٹن کارپوریشنز بہت زیادہ خودمختار ہوں گی۔ ان میں منتخب میئر اور ڈپٹی میئرز ہوں گے جبکہ یہاں سرکاری نمائندہ میٹروپولیٹن چیف آفیسر ہو گا۔

نئے بلدیاتی آرڈیننس کے تحت 1979ء والے آرڈیننس کی طرح میونسپل کمیٹیاں اور ٹاوٴن کمیٹیاں نہیں ہوں گی صرف ٹاوٴن یا تحصیل میں ٹاوٴن/تحصیل میونسپل کارپوریشنز ہوں گی۔

آرڈی نینس پر پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی کور کمیٹیز کا پھر اجلاس ہوا ۔ نو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس اجلاس کا مقصد بلدیاتی آرڈیننس کو سندھ اسمبلی سے پاس کرانے سے متعلق حکمت عملی ترتیب دینی تھی ۔رپورٹس کے مطابق اجلاس میں دونوں جماعتوں نے جہاں اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرانے سے متعلق بھی غور کیا گیا وہیں 13ستمبر کو قوم پرست جماعتوں کی صوبہ میں پہیہ جام ہڑتال کی ناکامی کیلئے بھی اہم بات چیت ہوئی۔

دوسری جانب اے این پی رہنما شاہی سید نے بھی پیر کو قوم پرستوں کی ہڑتال کی نہ صرف مکمل حمایت کا اعلان کیا بلکہ سندھ بھر کی پختون عوام ، ٹرا نسپورٹرز،تاجر وں اوروکلاء سمیت تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی عوام سے اسے کامیاب بنانے کی اپیل کی بھی کی ہے ۔

ادھر مسلم لیگ فنکشنل اورسندھ یونائیٹڈ پارٹی بھی ہڑتال کے معاملے پر ایک ہوگئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سندھ کے عوام نے نئے بلدیاتی آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے۔، جلال محمود شاہ نے کہا 13 ستمبر کی ہڑتال مکمل پرامن ہڑتال ہوگی، جلاوٴ گھیراوٴ ہوا تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ امتیاز شیخ نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار میئر کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے جارہے ہیں جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

تیسری جانب ایم کیو ایم اس ہڑتال کی شدید مخالفت کر رہی ہے اور اتوار کو الطاف حسین نے ایک بیان میں سندھ کے عوام سے اپیل کی تھی کہ اس ہڑتال کو ناکام بنا یا جائے ۔ پیر کو ایک اور بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی اصل روح ہے ، اس کی مخالفت جمہوریت کی مخالفت ہے ۔


اگلا حکومتی قدم

آرڈی نینس پر گورنر کے دستخط کے بعد اگلے حکومتی قدم کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے یہ آرڈیننس سندھ اسمبلی سے بل کی شکل میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔


آرڈی نینس عدالت میں چیلنج

اس آرڈی نینس کوکراچی سٹی الائنس کی جانب سے اقبال کاظمی نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیلنج کردیا گیا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں بلدیات کے حوالے سے کوئی ہنگامی صورتحال نہیں تھی پھر اسے آناً فاناً اور رات کے اندھیرے میں کیوں جاری کیا گیا۔

مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے پورا بلدیاتی نظام غیرمنصفانہ اور دیہی اور شہری کی تقسیم پر مبنی ہے۔یہ آئین کی دفعہ 4،5،8 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔عدالت سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دیئے جانے کی استدعا کی گئی ہے ۔