امریکی اخبارات سے: ’سٹیٹ آف دِی یونین‘ خطاب

مسٹر اوبامہ نے امی گریشن کے قانون میں اصلاح کرنے، بڑھتی ہوئی عالمی حرارت سے نمٹنے اور بارودی اسلحے پر کنٹرول کرنے کی ضرورت پر زور دیا
یہاں امریکہ میں یہ دستور ہے کہ صدر ہر سال کے آغاز پر امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں ملک کے اندرونی حالات پر اپنی رائے کا اظہارکرتا ہے اور اپنے مستقبل کے ایجنڈے کی بھی وضاحت کرتا ہے۔

جارج واشنگٹن نے اپنی پہلی سالانہ تقریر 8 جنوری سنہ 1790 کو نیویارک میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کی تھی۔

منگل کے روز، صدر براک اوبامہ نے کانگریس کے اجلاس سے جو خطاب کیا وُہ اُن کی عہد صدارت کی پانچویں تقریر تھی اور اس عہدے پر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد پہلی، جِس میں اُنہوں نے قوم کو داخلی اور خارجی امور سے نمٹنے کے پروگرام کی تفصیل بتائی۔


اور، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، اِس تقریر میں سب سے زیادہ زور ملک کے داخلی مسائل پر تھا، اور صدر نے اقتصادی نمو کی رفتار کو بڑھانے کے لئے کارپوریٹ ٹیکس کے قواعد میں اصلاح کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اُنہوں نے تجارت بڑھانے اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئےمتعدد مفید تجاویز پیش کیں۔ خارجہ پالیسی میں اُنہوں نے افغانستان سے آدھی فوج ایک سال کے اندر اندر واپس بلانے کا اعلان کیا۔ مسٹر اوبامہ نے امی گریشن کے قانون میں اصلاح کرنے، بڑھتی ہوئی عالمی حرارت سے نمٹنے اور بارودی اسلحے پر کنٹرول کرنےکی ضرورت پر زور دیا۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اپنی دوسری مدت صدارت کی پہلے افتتاحی تقریر میں صدر اوبامہ نے اپنی لبرل اقدار کا سب سے طاقتور دفاع کیا، اور ماحولیات کو بہتر بنانے، اسلحے کے معاملے میں معقولیت برتنے، اور امی گریشن پر شائستگی اپنانے کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کی تجاویزکی بدولت اقتصادی نمو کے لئے زیادہ مضبوط بنیاد فراہم ہوگی ،جِن میں مینو فیکچرنگ اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا، برآمدات میں اضافہ کرنا اور ٹیکسوں کے قواعد میں اصلاح کرنا شامل ہے۔

صدر نے کاربن مناکسائڈ کے اخراج میں تخفیف کرنے کی اپیل دُہرائی، اور ایسے معقول اقدامات کی حمائت کی جن کی بدولت بندوقوں کی مدد سے ہونے والی تشدد کی وارداتوں پر قابو پایا جا سکے۔

مسٹر اوبامہ نے ری پبلکن تجویز کو قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ یورپی اتحاد کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدہ طے کرنے کی کوشش کریں گے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ صدر کی تقریر بیشتر اقتصادی امور پر مرکوز تھی جِس میں اُنہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے جب ہمیں زیادہ متوازن راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ اِس میں وُہ اہم کردار شامل ہے جو حکومت کو اقتصادی پیش قدمی کو یقینی بنانے اور متوسّط طبقے کو محفوظ بنانے کے لئے ادا کرنا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ صدر کو اپنے سیاسی اور پالیسی کی اُن مجبوریوں کا احساس ہے اور اس کا بھی کہ چار سال کے 10 کھرب ڈالر سے زیادہ کے بجٹ خساروں اور آئندہ کی نسلوں پر قرضے کے بھاری بوجھ پر لوگ پریشان ہیں۔

’فلاڈلفیا انکوائیرر‘ کہتا ہے کہ خسارے کو کم کرنے کے بارے میں مسٹر اوبامہ نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اُن کی انتظامیہ اور کانگریس نے مل کر کام کیا ہے، تاکہ سنہ 2022 ءتک اس خسارے کو 25 کھرب ڈالر کی حد تک کم کیا جائے، اور دونوں پارٹیوں پر مشتمل کمیٹی نے اسے نہایت معقول تخمینہ قرار دیا ہے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے اگر وہائٹ ہاؤس مختلف نقطہٴ آغاز اختیار کرتا تو یہ اس سے زیادہ کم ہوتا۔

’ہیوسٹن کرانکل ‘ اخبار نے صدر اوبامہ کی تقریر کے اُس حصے کی طرف توجّہ دلائی ہے جِس میں اُنہوں نےکم سے کم اُجرت کو نو ڈالر فی گھنٹہ تک بڑھانے کے لئے کہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ صدارتی انتخابات میں اُن کے ری پبلکن مد مقابل مٹ رامنی کو بھی زندگی کے اخراجات کے مطابق اجرت میں اضافہ کرنے پر اُن سے اتفاق رائے تھا۔ صدر نے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے اس میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا۔

’یو ایس ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ صدر اوبامہ کی تقریر سے ظاہر تھا کہ اُن کا ایجنڈا لبرل ہے اور اُن کے سٹائل میں محاذ آرائی کا عنصرتھا۔ اور دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ زیادہ با اختیار محسوس کررہے تھے جنہیں دوبارہ انتخابات کے امتحان سے نہیں گُذرنا۔

چنانچہ، اخبار کے خیال میں اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اِس نئی حکمت عملی کی بدولت ، جس میں ارکان کانگریس کو قائل کرنے سے زیادہ رائے عامّہ کا دباؤ برُوئے کار لایا جائے گا۔ صدر اہم قوانین پاس کرا سکیں گے یا پھر اس کی وجہ سے ایک اور تعطّل پیدا ہوگا۔