سی پیک منصوبے میں دیگر ملکوں کو شامل کرنے کی تجویز، بھارت کا اعتراض

بھارت نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک میں کسی بھی تیسرے ملک کی شرکت ناقابلِ قبول ہو گی۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے کا کچھ حصہ پاکستان کے زیرِ انتظام اُن کے علاقوں سے گزرتا ہے جس پر بھارت اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔

بھارت کی طرف سے یہ بیان سی پیک کے بین الاقوامی تعاون اور رابطہ کاری کے مشترکہ ورکنگ گروپ کے حال ہی میں ہونے والے اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان اور چین نے سی پیک میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کو افغانستان تک وسعت دینے پر اتفا ق کیا ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارِندم باگچی نے منگل کو ایک بیان میں افغانستان یا کسی اور ملک کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ سی پیک میں کسی بھی تیسرے ملک کی طرف سے سرمایہ کاری غیر قانونی اور نا قابلِ قبول ہے۔ جو ان کے مطابق بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف ہو گی۔

یاد رہے کہ بھارت ماضی میں سی پیک کے تحت پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں جاری منصوبوں کی مخالف کرتا رہا ہے اور پاکستان سی پیک منصوبوں سے متعلق بھارت کے مؤقف کو رد کرتا آرہا ہے ۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے تازہ بیان پر تاحال پاکستان یا چین کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ جمو ں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کا حل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت ہونا ابھی باقی ہے۔

دوسری جانب چین سی پیک منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ یہ ایک اقتصادی منصوبہ ہے جو کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔


سی پیک چین کے وسیع 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے کا اہم حصہ ہے اور بیجنگ اسے صرف پاکستان تک محدود رکھنےکے بجائے دیگر ملکوں تک بھی توسیع دینا چاہتا ہے۔

دوسری جانب بھارت پہلے بھی سی پیک منصوبوں کے بارے میں اپنے اعتراضات کا اظہار کرتا رہا ہے۔

بھارت معترض کیوں؟

پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق سربراہ ہارون شریف کہتے ہیں کہ بھارت کو اب یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ سی پیک جیسے منصوبوں کو وسعت دے کر اسے افغانستان تک بڑھانے کا فیصلہ صرف چین اور پاکستان نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نعیم احمد کہتے ہیں کہ اس وقت بھارت کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہے اور بھارت خطے میں چین کے ابھرتے ہوئے اثر و رسوخ کو اپنے مفادات کے حق میں نہیں سمجھتا ہے۔

ان کے بقول فی الحال بھارت اس منصوبے میں دیگر ممالک کی شرکت اور اس منصوبے کو افغانستان تک وسعت دینے کے حق میں نہیں ہے۔

مستقبل میں بھارت بھی سی پیک منصوبوں میں شامل ہو سکتا ہے؟

نعیم احمد کہتے ہیں کہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بھارت مستقبل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ خطے میں فروغ پانے والے اقتصادی راہداری کے منصوبے اس کے مفاد میں ہیں تو اس صورت میں وہ ان منصوبوں میں شامل ہو سکتا ہے۔

لیکن نعیم احمد کہتے ہیں کہ اس وقت سب بڑا چیلنج افغانستان کی صورتِ حال ہے اور وہاں ایک مستحکم حکومت قائم ہونے کے بعد ہی سی پیک افغانستان سے آگے بڑھ سکے گا۔

پاکستان اور چین کی خواہش کے باوجود ابھی تک کسی اور ممالک کی طرف سے سی پیک کے منصوبوں میں سرمایہ کرنے کا کوئی واضح عندیہ نہیں دیا گیا ہے۔

لیکن ہارون شریف کہتے ہیں کہ اگرپاکستان اور چین نے اصولی فیصلہ کر لیا کہ وہ سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سی پیک کے ورکنگ گروپ کی رکینت میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

پاکستان اور چین کی طرف سے ایک ایسے وقت میں سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے کے بارے میں اتفاق رائے سامنے آیا ہے جب اس وقت پاکستان اور خطے کی دیگر ممالک مشکل اقتصادی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ دوسری جانب افغانستان کو بھی شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے ۔

ہارون شریف کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں خطے کے ممالک سی پیک جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ کیونکہ ان کےپاس ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے فی الحال شاید وسائل میسر نہ ہوں۔