لال مسجد ایک بار پھر توجہ کا مرکز

رواں ماہ ہی عبدالعزیز نے ایک بار پھر لال مسجد میں نماز جمعہ کے بعد ریلی نکالنے کا اعلان کیا لیکن انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کے حکام نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور مذاکرات کے بعد عبدالعزیز نے کوئی بڑی ریلی نہیں نکالی۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے قلب میں واقع لال مسجد ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن رہی ہے جس کی وجہ مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرف سے ملک میں شریعت نافذ کرنے کے لیے تحریک شروع کرنے کے اعادے کے بعد پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات ہیں۔

اس مسجد سے ملحقہ مدرسے کے طلبا کی طرف سے چند چینی باشندوں کو مبینہ طور پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر زبردستی یرغمال بنائے جانے اور پھر یہاں بھاری تعداد میں اسلحے اور عسکریت پسندوں کی موجود کی اطلاع پر جولائی 2007ء میں ایک فوجی آپریشن کیا گیا تھا جس میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مرنے والوں میں عبدالعزیز کے بھائی عبدالرشید غازی بھی شامل تھے جب کہ خود انھیں سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا۔

رواں ماہ ہی عبدالعزیز نے ایک بار پھر لال مسجد میں نماز جمعہ کے بعد ریلی نکالنے کا اعلان کیا لیکن انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کے حکام نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور مذاکرات کے بعد عبدالعزیز نے کوئی بڑی ریلی نہیں نکالی۔

لیکن اب ان کی طرف سے یہ بیان سامنے آ رہا ہے کہ انھوں نے گزشتہ سال لاپتا ہونے والے اپنے داماد کی بازیابی کے لیے حکام کو دو ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ دوسری صورت میں وہ بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالیں گے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے اپنی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہٹانے، اپنے خلاف سول سوسائٹی کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر ختم کرنے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے مہم میں رکاوٹ نہ ڈالنے کے مطالبات بھی کیے ہیں۔

اس بارے میں تاحال حکام کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن حالیہ دونوں میں لال مسجد اور اس کے گرد و نواح میں سکیورٹی انتظامات میں ماضی کی نسبت اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

حکومتی عہدیداروں نے بھی عبدالعزیز کی حالیہ بیان بازی پر کوئی واضح بیان تو نہیں دیا لیکن ہفتہ کو وفاقی وزیر اطلاعات نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اپنی مرضی مسلط کرنے والوں کے جبر کا سب کو سامنا رہا ہے اور ان کے بقول ایسے ہی عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں تاکہ سب کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

ملک میں دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل کے تحت انتہا پسندی پر مبنی بیانات اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں اور دہشت گردوں کی کسی بھی طرح سے معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

ملک کے مختلف علاقوں سے لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والے درجنوں افراد کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے جا چکے ہیں۔