اداس نسلوں کا داستان گو

'اداس نسلوں' جیسے کلاسیک ناول کے مصنف عبداللہ حسین کے ساتھ ایک ملاقات کا احوال
کراچی میں ہونے والے تین روزہ لٹریچر فیسٹول کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ یہاں دن کے چھ مختلف اوقات میں بیک وقت سات، آٹھ نشستیں ہوتی رہیں۔ اور ان تمام اوقات میں کم از کم دو، تین پروگرام ایسے ہوتے تھے جن میں شریک ہونے کے لیے دل مچلتا تھا۔

لیکن ظاہر ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی پروگرام سنا جاسکتا تھا سو دل پر پتھر رکھ کر باقی نشستیں چھوڑنا پڑتی تھیں۔

فیسٹول کے آخری دن کے آخری سیشن میں یہ پریشانی اور بھی دوچند ہوگئی۔ ایک ہال میں معروف شاعر امجد اسلام امجد کے ساتھ گفتگو اور ان کی شاعری کی سماعت کا اہتمام تھا، تو اسی وقت ایک دوسرے ہال میں معروف صداکار ضیا محی الدین اپنی مسحور کن آواز میں اردو اور انگریزی ادب سے اقتباسات پیش کر رہے تھے۔

لیکن میں نے نسبتاً ایک چھوٹے ہال میں ہونے والی نشست کا انتخاب کیا جہاں چند سنجیدہ اور زیادہ تر بڑی عمر کے افراد اپنے عہد کے بہت بڑے ناول نگار عبداللہ حسین کو سننے کےلیے جمع تھے۔

'اداس نسلوں' جیسے کلاسک ناول کے مصنف 82 سالہ عبداللہ حسین لاہور میں مقیم ہیں اور عموماً ادبی و سماجی تقریبات سے دور رہتے ہیں۔ لہذا کمرہ ان کی آمد سے قبل ہی انہیں سننے کے لیے آنے والوں سے بھر چکا تھا۔

کچھ دیر میں عبداللہ حسین کمرے میں داخل ہوئے۔ دراز قامت، گندمی رنگت، سفید داڑھی اور کھچڑی بالوں والے 82 سالہ عبداللہ حسین کو دیکھ کر جو پہلا تاثر ذہن میں ابھرا وہ رعب اور دبدبے کا تھا۔

نشست کے میزبان نے ان کا مختصر تعارف کرایا جس کے بعد عبداللہ حسین نے اپنے پہلے ناول 'اداس نسلیں' اور پھر اپنی کہانیوں کے حال ہی میں شائع ہونے والے مجموعے 'فریب' سے چند اقتباسات سنائے۔

عبداللہ حسین کے چار ناول (اداس نسلیں، باگھ، قید، نادار لوگ) اور افسانوں کے تین مجموعے (نشیب، رات، فریب) شائع ہوچکے ہیں تاہم پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے زیرِ نگیں ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات کا احاطہ کرتا ان کے ناول 'اداس نسلیں' کو قارئین اور ادبی حلقوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی۔

عبداللہ حسین نے بتایا کہ انہوں نے یہ ناول لگ بھگ 50 برس قبل اس وقت لکھا تھا جب وہ ایک نجی کمپنی کی ویرانے میں واقع ایک فیلڈ پر ملازمت کرتے تھے۔

ان کے بقول انہوں نے اپنی اکتاہٹ سے تنگ آکر ایک روز کوئی کہانی لکھنے کے ارادے سے قلم اٹھایا تھا لیکن چند سطریں لکھنے کے بعد ہی ان کے ذہن میں اچانک 'اداس نسلیں' کی کہانی 'فلیش' کی صورت میں گزر ی اور ناول کا پورا سانچہ آگیا۔

عبداللہ حسین نے بتایا کہ انہوں نے اس ناول پر کام کا آغاز کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہ موضوع وقت اور تحقیق طلب ہے۔ لہذا انہوں نے اس ناول کے لیے ضروری معلومات اکٹھی کرنے کی غرض سے تاریخ کی کتابوں اور ضروری دستاویزات سے مدد لی، اور جنگِ عظیم اول میں حصہ لینے والے ہندوستانی سپاہیوں اور نصف صدی قبل کے اس دور کو بسر کرنے والے افراد سے ملاقاتوں کے لیے کئی سفر کیے اور ان کے حالات و تجربات سنے۔


عبداللہ حسین نے بتایا کہ انہوں نے خود لگ بھگ 15 برس قبل 'اداس نسلوں' کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جو لندن اور نئی دہلی سے 'دی ویئری جنریشنز' کے نام سے شائع ہوا۔ بعد ازاں اس انگریزی ترجمے سے اس ناول کے ترکی اور نارویجئن زبانوں میں بھی ترجمے ہوئے۔

اس دوران میں ایک صاحب نے عبداللہ حسین سے سوال کردیا کہ کیا وہ ادب میں گالیوں کا استعمال روا سمجھتے ہیں تو "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ ۔ "

مجھے یاد آیا کہ جب کئی برس قبل میں نے 'اداس نسلیں' پڑھا تھا تو اس میں گالیوں کے استعمال سے طبیعت بڑی مکدر ہوئی تھی۔ میں اس وقت سنجیدہ ادب کا نیا نیا قاری تھا اور گالیوں کو تحریری صورت میں دیکھنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔

لیکن عبداللہ حسین سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت مجھے اس لیے نہ ہوسکی کہ مجھے ایک دن قبل ہی بھارت سے آئے ہوئے اردو کے معروف نقاد شمیم حنفی کی زبانی اس کا جواب مل چکا تھا۔

شمیم صاحب نے بتایا تھا کہ بھارت کے ایک نقاد نے جب عبداللہ حسین سے ناول میں گالیوں کی موجودگی پر ناگواری ظاہر کی تو انہوں نے مختصراً صرف اتنا جواب دیا تھا کہ "میں نے یہ ناول آپ جیسے شریف آدمی کے لیے نہیں لکھا تھا!!"۔

لیکن آج غالباً عبداللہ حسین اچھے موڈ میں تھے لہذا انہوں نے اس سوال کا برامنائے بغیر تفصیل سے جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ادب میں 'ریئل ازم' کے قائل ہیں اور اسی لیے ناول میں بیان کیے گئے حالات کو قاری کے سامنے جوں کا توں پیش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گالیاں دینے کا کسی کو شوق نہیں ہوتا لیکن ایک 'ریئلسٹ' اپنے تخلیق کردہ کردار کی وضاحت کے لیے ایسا کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کسی ناول یا افسانے میں اپنے کسی کردار کا سراپا بیان نہیں کیا ہے بلکہ وہ اس کردار کی گفتگو اور حرکات کے ذریعے قاری کے ذہن میں اس کا نقشہ بناتے ہیں۔ ان کے بقول کیوں کہ 'اداس نسلیں' کے کردار معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہاں گالی گلوچ ہوتی تھی لہذا حقیت نگاری کے باعث وہ ناول میں بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض ناولوں کے عنوانات زیادہ مشہور ہوجاتے ہیں اور 'اداس نسلیں' کی مقبولیت میں اس کے عنوان نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔

عبداللہ حسین کا کہنا تھا کہ ایک ناول نگار کو دو زندگیاں بسر کرنا پڑتی ہیں، ایک عام اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اور ایک دوسری اپنی تحریروں کے کرداروں کے ساتھ۔

انہوں نے بتایا کہ ناول کے پلاٹ کا ذہن میں آنا ان کے لیے ایک بڑا پراسرار سا تجربہ ہوتا ہے جسے ان کے بقول لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

عبداللہ حسین نے کہا کہ دوستووسکی ان کا پسندیدہ ناول نگار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک طویل کہانی 'واپسی کا سفر' ہسپانوی زبان میں چھپی اور بہت مقبول ہوئی جس کی لاکھوں جلدیں فروخت ہوچکی ہیں۔

بیاسی سالہ یہ ناول نگار اپنے دور اور اس کے مسائل سے مسلسل ہم آہنگ ہے اور ان کا پانچواں ناول افغانستان کے حالات سے متعلق ہے جو ان کے بقول جلد ہی شائع ہوگا۔