تیزاب حملوں کے خلاف مہم میں نوجوانوں کی شرکت پر زور

اسلام آباد میں امریکی سفیر کی اہلیہ ڈاکٹر میریلین وائیٹ اور پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے نے خواتین کے خلاف تیزاب حملوں میں پاکستانی نوجوانوں کی شرکت پر زور دیا ہے۔

امریکہ نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نگران ادارے ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن‘ اور دیگر فلاحی تنظیموں کے اشتراک سے منگل کو وفاقی دارالحکومت میں ’تیزاب سے حملے اور اس کے معاشرے پر اثرات‘ کے عنوان سے ایک مباحثے کا انعقاد کیا جس کی میزبانی ڈاکٹر میریلین وائیٹ نے کی۔

فلم ساز شرمین عبید چنائے کے علاوہ حاظرین میں ملک کی مختلف جامعات کے طلبا و طالبات، سرکاری عہدیدار اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر وائیٹ اس موقع پر صنفی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس تقریب کا بنیادی مقصد تیزاب سے حملوں کے ہولناک اثرات کے بارے میں نوجوان نسل میں آگاہی بڑھانا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لیے تیزاب سے حملوں جیسے اہم مسئلے کے بارے میں ان کا حساس ہونا ناگزیر ہے تاکہ ان کے خاندان کی خواتین ایسے لرزہ خیز جرائم کا شکار نا ہوں۔

’’تیزاب حملوں کا نشانہ بننے والوں میں بیشتر خواتین ہوتیں ہیں اور عمومی طور پر خاندانی جھگڑے اس کا سبب بنتے ہیں۔ جب کہ حملہ کرنے والے بھی متاثرین کے قریبی رشتہ ہی ہوتے ہیں‘‘۔

فلم ساز شرمین عبید نے امریکی معاونت سے منعقدہ اس مباحثے کو ملک گیر آگاہی مہم کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔

’’اس طرح کے مباحثے ہر یونیورسٹی میں ہونے چاہیئں، آج کا ڈائیلاگ 60 سے زائد جامعات میں براہ راست دکھایا گیا۔ ہمارے مسئلے تب ہی حل ہو سکتے ہیں جب نوجوان نسل ان کے بارے میں بات کرے اور ان کا حل ڈھونڈے‘‘۔

امریکی سفیر کی اہلیہ ڈاکٹر وائیٹ نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو با اختیار بنانے سمیت مختلف منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے جن کے لیے امریکہ کا ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یوایس ایڈ‘ مالی اعانت فراہم کر رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ صنفی مساوات کے فروغ سے متعلق اب تک 76 منصوبوں کے لیے امریکہ 35 لاکھ ڈالر فراہم کر چکا ہے جن میں سے ایک منصوبے کے تحت 16 لاکھ خواتین کے ووٹوں کے اندارج کو یقینی بنایا جا سکے گا تاکہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔

مباحثے کے شرکاء نے پاکستان میں تیزاب سے حملوں کے خلاف حالیہ قانون سازی کو سراہا مگر اکثریت نے ان پر موثر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔