افغانستان: صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ 14 جون کو ہو گا

عبداللہ عبداللہ

پہلے مرحلے کے حتمی نتائج کے مطابق عبداللہ عبداللہ کو 45 فیصد ووٹ ملے جب کہ اشرف غنی 31.6 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔
افغانستان میں پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی اُمیدوار پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نا کر سکا جس کے بعد ملک کے دستور کے مطابق انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہو گا۔

خودمختار الیکشن کمیشن کے سربراہ احمد یوسف نورستانی نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں پہلے مرحلے کے حتمی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عبداللہ عبداللہ کو 45 فیصد ووٹ ملے جب کہ اشرف غنی 31.6 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔

پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے سابق وزیر خارجہ عبد اللہ عبداللہ اور عالمی بینک سے وابستہ رہنے والے معاشی اُمور کے ماہر اشرف غنی کے درمیان منصب صدارت کے لیے انتخابات کا دوسرا اور حتمی مرحلہ 14 جون کو ہو گا جب کہ نتائج کا اعلان 22 جولائی کو کیا جائے گا۔

اشرف غنی


صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی وجہ مبینہ دھاندلی کی شکایات تھیں جس کی وجہ سے ہزاروں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی۔

افغانستان کی رکن پارلیمان شکریہ بارکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دوسرے مرحلے میں دونوں اُمیدواروں میں سے جس نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے وہی ملک کا صدر ہو گا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 11.4 فیصد ووٹ حاصل کرنے والے اُمیدوار زلمے رسول نے عبد اللہ عبداللہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

زلمے رسول کو پہلے مرحلے میں صدر حامد کرزئی کی حمایت حاصل تھی۔

پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات میں طالبان کی طرف سے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے اور انتخابات کا حصہ بننے والوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

صدر حامد کرزئی 2001ء میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے اقتدار میں ہیں۔ لیکن ملک کے آئین کے مطابق وہ مسلسل تیسری مرتبہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں۔

عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں ہی امریکہ کے ساتھ مجوزہ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے حامی ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو اس معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔

سکیورٹی معاہدے کے مطابق 2014ء کے بعد بھی امریکہ کے لگ بھگ دس ہزار فوجی افغانستان میں رہ سکیں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کا نیا صدر ہی اس پر کوئی فیصلہ کرے گا۔