مشکلات کے باوجود بہتر معاشی مستبقل کا وعدہ

صدارتی انتخاب کے لیے دوبارہ اُمیدوار نامزد ہونے پر صدر اوباما پارٹی کارکنوں کی تالیوں کا جواب دیتے ہوئے

صدر براک اوباما نے جمعرات کی شب ڈیموكریٹک نیشنل كنونشن میں نومبر 2012ء كے صدارتی انتخاب كے لیے اُمیدوار كی نامزدگی قبول كرنے كے بعد تقریر کرتے ہوئے رائے دہندگان سے وعدہ کیا کہ مشکلات کے باوجود اُن کی قیادت میں امریکہ کا معاشی مستقبل بہتر ہوگا۔

شارلیٹ میں پارٹی کنونشن میں موجود ہزاروں حامیوں اور ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں امریکی رائے دہندگان کو مخاطب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ جب وہ ووٹ ڈالنے كے لیے جائیں گے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں كہ واشنگٹن میں ہونے والے فیصلے آنے والی کئی دہائیوں تک امریکیوں اور اُن کے بچوں كی زندگیوں پر اثر انداز ہوں گے۔


’’آپ كا فیصلہ دو اُمیدواروں یا پارٹیوں میں سے كسی ایک كے لیے نہیں ہو گا بلكہ یہ امریكہ كے مستقبل كا تعین كرے گا۔"

انہوں نے كہا كہ ڈیموكریٹک پارٹی كے فیصلے قومی معیشت كو مضبوط اور امریكہ میں ایک وسیع ’’مڈل كلاس‘‘ (متوسط طبقے) کو جنم دیں گے۔

صدر اوباما ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونش میں خاتون اول اور اپنے بچوں کے ہمراہ


’’راستہ کٹھن ہے مگر ہم اپنے مسائل حل اور مشکلات سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔۔۔ یہ ظاہر نہیں كروں گا كہ میں جو راستہ دكھا رہا ہوں وہ آسان اور منزل کی طرف تیزی سے لے جائے گا۔ سچ یہ ہے كہ کئی دہائیوں میں پیدا ہونے والے مسائل محض چند سالوں میں ختم نہیں ہوں گے۔‘‘

امریکی صدر نے حریف ریپبلكن پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خسارہ كم كرنے كے لیے متوسط طبقے پر ٹیكس بڑھائے گی۔

’’ریپبلكن پارٹی كے پاس خرابیاں گنوانے كے علاوہ كچھ نہیں۔ وہ یہ تو بتا سكتے ہیں كہ كیا غلط ہے لیكن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اسے درست كیسے كیا جائے گا۔‘‘

صدر اوباما نے مستقبل كے اہداف کا ذكر كرتے ہوئے كہا کہ اُن کی پالیسیوں کی بدولت 2016ء تک ملک میں روزگار کے دس لاکھ نئے مواقع پیدا ہوں گے، جبکہ 2014ء تک برآمدات دگنی اور 2020ء تک تیل کی درآمدات کم ہو کر آدھی رہ جائیں گی، اور دہائی کے اختتام تک قدرتی گیس سے منسلک چھ لاكھ نئے روزگار پیدا كیے جائیں گے۔۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اُن کی حکمت عملی ماحولیات پر اثر انداز ہونے والے توانائی كے ذرائع پرانحصار كم كرنے میں مدد دے گی۔

’’اگر آپ چاہتے ہیں كہ ہر كسی كو موقع ملے اور قوانین سب كے لیے ایک جیسے ہوں تو مجھے ووٹ دیں۔‘‘

رپبلکن پارٹی کے رہنما، جنہوں نے گزشتہ ہفتے مٹ رومنی کو اپنا صدارتی اُمیدوار نامزد کیا تھا، اپنے دلائل میں ملک کی تاریخ میں بے روزگاری کی بلند ترین آٹھ اعشاریہ تین فیصد شرح کو اوباما کی پالیسیوں کی ناکامی کا ثبوت گردانتے ہیں۔ ان کے بقول یہ پالیسیاں بجٹ خسارے میں اضافے اور کاروبار کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔


ریپبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی


لیکن حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اقتصادی بہتری اورآٹو انڈسٹری کی بحالی کے لیے اوباما انتظامیہ کے منصوبوں کےبغیر امریکہ کی معیشت آج بدتر ہوتی۔

اب تک سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں میں صدراوباما کو اپوزیشن رپبلکن پارٹی کے اُمیدوار مٹ رومنی پرمعمولی سبقت حاصل ہے اورمبصرین امریکہ کے نومبر کے صدارتی انتخاب میں دونوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کررہے ہیں۔

سیاسی تجزہ کاروں کا خیال ہے کہ صدارتی انتخاب سے قبل دو ماہ کے اس قلیل عرصے میں اوباما کو تذبذب کا شکار بالخصوص اُن رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی جنہوں نے 2008ء میں’’اُمید اور تبدیلی‘‘ کے اُن کے پیغام سے متاثر ہوکراُنھیں ووٹ دیا تھا، مگرکئی سالوں سے جاری اقتصادی کمزوری اورسیاسی بحث وتکرار کے بعد محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس فریب سے باہر نکل آئے ہیں۔

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ چارسال قبل ہونے والا انتخاب ’’میرے نہیں بلکہ آپ سے متعلق تھا اورتبدیلی بھی آپ تھے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ صحت عامہ کے نظام میں اصلاحات، امیگریشن سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلی اورفوج میں ہم جنس پرستوں کی بھرتی پرپابندی کا خاتمہ جیسی کامیابیوں کا سہرا اُن کے نہیں بلکہ امریکی عوام کے سر ہے۔

صدر اوباما نے کہا کہ اگر اب اُنھوں نے اپنا رُخ موڑ لیا تو اس’’بدخوئی‘‘ کو تقویت ملے گی کہ جس تبدیلی کے لیے ہم نے جدوجہد کی وہ ممکن نہیں اور ’’تبدیلی کبھی نہیں آئے گی‘‘۔

انہوں نے افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ 2014ء میں ختم ہو جائے گی۔


افغانستان میں برسر پیکار امریکی فوجی


’’افغانستان میں طالبان كا زور ٹوٹ چكا ہے۔ القاعدہ ہم سے بھاگ رہی ہے اور اسامہ بن لادن مارا جا چكا ہے۔‘‘

صدر اوباما نے سیاسی مخالفین کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج بھی القاعدہ كی بجائے روس كو امریكہ كا سب سے بڑا دشمن سمجھنے والے ابھی تک سرد جنگ كی سوچ سے باہر نہیں نكلے۔


ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار اوباما نے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے حریف رومنی اور رپبلکن پارٹی کے نائب صدارتی اُمیدوار پال ریان کی ناتجربہ کاری کو بھی ہدف تنقید بنایا۔

اوباما صدارتی انتخاب کے لیے دوبارہ اُمیدوار نامزد


’’ وہ ایک بار پھر ہمیں ہنگامہ خیز اور بدانتظامی کے زمانے کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں جس کی امریکہ کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔‘‘

دورہ برطانیہ میں لندن اولمپکس کی تیاریوں پر مٹ رومنی کی تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ’’اگر آپ اپنے ایک قریبی اتحادی کی تضحیک کیے بغیر اولمپکس کا دورہ نہیں کرسکتے تو ہوسکتا ہے آپ بیجنگ (چین) کے ساتھ سفارت کاری کے لیے بھی ابھی تیار نہیں‘‘۔

رپبلکن پارٹی کے اُمیدوار رومنی نے گزشتہ ہفتہ صدارتی اُمیدوار نامزد ہونے کے بعد اپنی تقریر میں امریکہ کو درپیش اقتصادی مسائل اور اُن کے حل پر زیادہ توجہ دی مگر افغانستان، مشرق وسطیٰ اور ایران جیسے اہم خارجہ پالیسی کے اُمور کو تقریباً نظر انداز کردیا جس پر مقامی میڈیا اور مبصرین کی طرف سے اُنھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

صدر اوباما کی نامزدگی اور اُن کی تقریر کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کا تین روزہ قومی کنونشن بھی اختتام پذیر ہوگیا ہے۔