اڈے پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی: عاصم باجوہ

میجر جنرل عاصم باجوہ (فائل فوٹو)

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ کسی مفروضے پر مبنی نہیں بلکہ وہ یہ بات شواہد کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ جمعہ کو پشاور کے بڈھ بیر فضائی اڈے پر ہونے والے طالبان کے حملے کی نہ صرف منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، بلکہ اس کارروائی سے متعلق ہدایات بھی وہیں سے دی جاتی رہیں۔

طالبان شدت پسند جمعہ کو علی الصبح فضائی اڈے کی حدود میں داخل ہوئے جہاں سکیورٹی فورسز نے انھیں گھیرے میں لے کر ہلاک کر دیا۔

فوج کے مطابق بڈھ بیر اڈے میں داخل ہونے والے تمام 13 حملہ آور مارے گئے جب کہ ایک فوجی افسر سمیت 29 افراد ہلاک ہو گئے جن میں اکثریت پاکستانی فضائیہ کے اہلکاروں کی تھی۔

جمعہ کی شام پشاور میں فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اس حملے سے متعلق ابتدائی انٹیلی جنس معلومات سے پتا چلا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔

"یہ جو لوگ آئے یہ افغانستان سے آئے، یہ آپریشن افغانستان میں پلان ہو رہا تھا افغانستان سے ہی پلان ہو کر اس پر عمل کیا گیا اور افغانستان سے ہی کنٹرول ہو رہا تھا اور اس میں آگے کیا تعلق ہے یہ ابھی انٹیلی جنس والے اس پر کام کر رہے ہیں میں اس پر ابھی بات نہیں کرنا چاہتا۔"

ان کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ کسی مفروضے پر مبنی نہیں بلکہ وہ یہ بات شواہد کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔

"ہمارے ہمسایہ ملک میں کوئی پٹاخہ بجتا ہے تو ساتھ ہی پاکستان کی طرف اشارے شروع ہو جاتے ہیں اور ہمارا نام لے لیا جاتا ہے۔ ہم نے جو بھی کہا وہ ثبوت کی بنیاد پر کہا، ہم نے رابطوں کا کھوج لگایا، گفتگو کو سنا اور تکنیکی طور پر جائزہ لینے کے بعد میں نے یہ بتایا۔"

تاہم عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس میں افغان حکومت یا ان کا کوئی ادارہ ملوث ہوسکتا ہے۔

پاکستان پہلے بھی کہتا رہا ہے کہ شمالی علاقوں میں جاری فورسز کی کارروائیوں کے باعث بہت سے شدت پسند فرار ہو کر افغانستان چلے گئے ہیں اور کابل کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے۔

گزشتہ ماہ ہی افغانستان میں ہونے والے پے در پے ہلاکت خیز حملوں کے بعد افغان قیادت کی طرف سے بھی ایسے بیانات سامنے آئے تھے کہ ان حملوں کے لیے شدت پسند پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں اور اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ ان شدت پسندوں کے ٹھکانے تباہ کرے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گزشتہ ایک سال کے دوران قابل ذکر حد تک بہتر ہوئے تھے لیکن اگست کے اوائل میں کابل میں حملوں کے بعد افغان قیادت کی طرف سے پاکستان کے خلاف تنقیدی بیانات کے بعد دوطرفہ تعلقات میں کسی حد تک تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں معاونت اور حمایت کے اپنے عزم پر قائم ہے۔