سرگرم پشتون کارکنان کی ضمانتیں منظور

فائل

وفاقی دارالحکومت میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے رواں ماہ کے اوائل میں گرفتار ہونے والے 37 سرگرم پشتون کارکنان کی ضمانتیں منظور کر لی ہیں اور توقع ہے کہ انھیں جمعرات کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔

یہ کارکنان اس مظاہرے میں شامل تھے جو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی کال پر جنوبی وزیرستان میں پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) اور حکومت کی حامی مقامی امن کمیٹی کے کارکنوں کے درمیان متحارب تنازع میں ہلاکتوں کے خلاف اسلام آباد میں منعقد کیا گیا تھا۔

گرفتار ہونے والوں میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی ایم کے کارکنان اور عوامی ورکز پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے اور ان پر ریاست مخالف تقاریر اور بغاوت سمیت مختلف الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

گرفتار شدگان کی پیروی کرنے والے وکیل حافظ فضل الرحمٰن نے بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ عدالت نے درخواستیں منظور کر لیں۔ لیکن، وقت کی کمی کے باعث ضابطے کی باقی ماندہ کارروائی مکمل نہ ہونے پر ان افراد کو بدھ کو رہا نہیں کروایا جا سکا۔

بقول اُن کے، "ہم نے اپنے دلائل دیے اور عدالت نے ہماری درخواست منظور کر لی۔ لیکن، جو عدالتی کارروائی ہوتی ہے ضمانتی وغیرہ پیش کرنے تھے، ضمانتی مچلکوں کی رقم بینک میں جمع کروانی تھی اس پر وقت لگنا تھا تو اب یہ بندے کل رہا ہو جائیں گے۔"

وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ ملزمان پر عائد الزامات کے ثبوت اور ان کی قانونی حیثیت کا تعین عدالتی کارروائی کے دوران ہی کیا جائے گا اور ضمانت پر رہا ہونے والے اپنے دفاع کے لیے عدالت میں پیش ہوتے رہیں گے۔

تین جون کو جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا میں حکومت کے حامی مبینہ عسکریت پسندوں نے پی ٹی ایم کے ایک مرکزی رہنما علی وزیر کے گھر کا گھیراؤ کرتے ہوئے انھیں مبینہ طور پر علاقہ چھوڑنے یا یہ تحریک کا ساتھ ترک کرنے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنے کا کہا تھا۔

لیکن علی وزیر نے ان دونوں باتوں سے انکار کر دیا جس کے بعد تحریک کے کارکنان اور ان مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں اسلحے کا بھی استعمال کیا گیا اور اس واقعے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔