حلب کے اسپتالوں پر حملے ’’جنگی جرائم‘‘: بان کی مون

فائل

اُنھوں نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ ’’ہمیں صاف گوئی سے کام لینا ہوگا۔ جو لوگ زیادہ مہلک اسلحے کا استعمال کرتے ہیں اُنھیں واضح طور پر پتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اُنھیں پتا ہے کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں‘‘

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون شام کے شہر حلب میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں دو بڑے اسپتالوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اِنھیں ’’جنگی جرائم‘‘ قرار دیا ہے۔

اُن کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام کے معاملے پر روس کے ساتھ رابطے منقطع کرنے کی دھمکی دی ہے، جب تک روس اور شام کی جانب سے حلب پر کیے جانے والے حملے بند نہیں ہوتے۔

حلب میں بدھ کو ہونے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں دونوں اسپتالوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث اُنھیں بند کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں شہر میں طبی دیکھ بھال کی خدمات مزید محدود ہوگئی ہیں، جنھیں پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری لڑائی کے نتیجے میں سخت نقصان پہنچا ہے۔

بان نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ ’’ہمیں صاف گوئی سے کام لینا ہوگا۔ جو لوگ زیادہ مہلک اسلحے کا استعمال کرتے ہیں اُنھیں واضح طور پر پتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اُنھیں پتا ہے کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں‘‘۔

ایم 2 اور ایم 10 اسپتال حلب کے اُس علاقے میں واقع ہیں جو باغیوں کے کنٹرول میں ہیں، جو صدر بشار الاسد کے مخالف ہیں۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو پایا آیا اسپتالوں پر حملوں کا کون ذمہ دار ہے۔ شام میں فوجیں، اُس کا اتحادی روس اور امریکی قیادت والا اتحاد سارے شام میں بم باری کرتے ہیں، اور جب شہری آبادی نشانہ بنتی ہے تو وہ اِن فضائی حملوں کا ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

ادھم سہلول کا تعلق شامی امریکی طبی تنظیم سے ہے۔ اُنھوں نے بدھ کے روز کہا کہ یہ فضائی حملے دانستہ طور پر کیے جاتے ہیں، اور مشرقی حلب میں 350000 افراد کے علاج کے لیے صرف 29 ڈاکٹر ہیں۔

دریں اثنا، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ثقافت، تعلیم و سائنس (یونیسیف) نے کہا ہے کہ جمعے کے روز سے مشرقی حلب میں اب تک کم از کم 96 بچے ہلاک، جب کہ 223 زخمی ہوئے۔

’یونیسیف‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مشرقی حلب میں صحت کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جہاں زخمیوں کے علاج کے لیے صرف 30 ڈاکٹر رہ گئے ہیں، جب کہ کوئی آلات یا ہنگامی ادویات باقی نہیں رہیں، اور صدموں کے نتیجے مین بیمار ہونے والوں کی بحالی کی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔