بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق تحقیقات منظر عام پر آگئیں

بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق تحقیقات منظر عام پر آگئیں

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے سن 2007ء میں سابق وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کی راہنما بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق تحقیقات پرسے پردے اٹھا دیئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قتل القاعدہ کے رکن بیت اللہ محسود اور ابو عبید المصری کی سازش کا نتیجہ تھا ۔ سازش جنوبی وزیرستان میں مکین کے مقام پر تیار کی گئی تھی۔

وفاقی وزیر نے منگل کی سہ پہر سندھ اسمبلی میں بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق تحقیقات ایوان کے روبرو پیش کیں جو کئی گھنٹوں پر محیط تھیں۔ ان کے بعد بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ خالد قریشی نے بھی ایوان کوقتل سے متعلق مزید بریفنگ دی۔

سندھ اسمبلی میں حال ہی میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں ارکان نے وفاقی حکومت سے بے نظیر بھٹو قتل کیس سے متعلق تحقیقات سے ایوان کوا ٓگاہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

تحقیقاتی بریفنگ کے دوران رحمن ملک نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر سندھ اسمبلی کے ارکان کے سامنے ویڈیوز، تصاویر اور مختلف چارٹس بھی پیش کئے ۔ ان کی جانب سے ارکان کو بتایا گیا کہ سازش بیت اللہ محسود اور القاعدہ کے دہشت گرد ابوعبیدہ المصری نے تیار کی تھی ۔ ویڈیو میں مذکورہ دونوں افراد کو ایک ساتھ نماز پڑھتے اور بعد ازاں ہدایات لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔

بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق تحقیقات منظر عام پر آگئیں



بریفنگ کے وقت ارکان سندھ اسمبلی کو بینظیربھٹو پر حملے سے پہلے کی ویڈیو بھی دکھائی گئی اور اس وقت کی صورتحال سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر بیت اللہ محسود اور مولوی صاحب کی گفتگو کا متن بھی دکھایا گیا جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ بریفنگ کے دوران ارکان اسمبلی کو اسکرین پر رپورٹ کے کچھ حصے کی نقل اور ملزمان کے اقبالی بیانات سمیت مختلف دستاویزات دکھائی گئیں ۔ ساتھ ہی 2007ء میں طالبان قیادت کا مکمل چارٹ بھی دکھایا گیا۔

ادھر بے نظیر بھٹو قتل کیس کے تفتیشی افسر خالد قریشی کا کہنا ہے کہ طالبان اور پرویز مشرف بے نظیر کو خطرہ سمجھتے تھے۔ سندھ اسمبلی میں بریفنگ کے دوران خالد قریشی کا کہنا تھا کہ قاری حسین نام کے ایک شخص نے جو القاعدہ کا ٹرینر ہے ، بمبار تیار کئے جبکہ ایک اور شخص قاری اسماعیل نے جیکٹس فراہم کیں۔

خالد قریشی کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی پر خطرات کا سامنا تھا۔ طالبان اور مشرف محترمہ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے، بینظیربھٹو کو قتل کرنے کیلئے کالعدم تحریک طالبان کے جھنڈے تلے 27 دہشت گرد گروپ منظم ہوئے، جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں منصوبہ بندی کی گئی۔ منصوبہ ساز اور رقم فراہم کرنے والے کا تعلق فاٹا سے ہے۔ قاری حسین جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کا ٹرینرتھا اور اسی نے درجنوں خودکش بمبار تیار کئے۔ الیاس کشمیری اور میجر ہارون بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو پر حملے کے بعد بیت اللہ محسود اورمولوی صاحب کی بات چیت ریکارڈ ہوئی۔ یہ گفتگو پشتو میں کی گئی جس میں بیت اللہ محسود نے پوچھتا ہے کہ ہمارے لوگ تھے، بیت اللہ محسود نے ٹیلی فونک گفتگو میں مبارکباد بھی دی۔مولوی صاحب نے جواب میں بتایاکہ لڑکے دلیر تھے،آکرسب بتاوٴں گا، سربراہ تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب کی شخصیت ابھی تک پراسرار ہے،ممکنہ طور پر مولوی صاحب کا نام مولوی انور ہے۔

خالد قریشی کے مطابق قاری اسماعیل نے بمباروں کو جیکٹس فراہم کیں، خودکش بمباروں بلال اور قاضی کوایک اور شخص نصراللہ نے راولپنڈی پہنچایا، رفاقت خودکش بمباروں کو راولپنڈی تک لے کرگیا، بمباروں کو پیرودھائی سے لیاقت باغ پہنچایا گیا، ان کے پاس پستول اور دستی بم بھی تھے جو موبائل فون نصراللہ اور عبادالرحمن استعمال کررہے تھے ، اسی نمبر سے کراچی سے اغوا ہونے والے فلمساز ستیش آنند کے گھر والوں کو تاوان کی کال آئی تھی۔ اور ایک سال بعد وہی سم استعمال کرنے سے ملزمان کا پتہ چلا۔

خالد قریشی کے مطابق راولپنڈی پولیس نے اعتزاز، قاری حسین شاہ ، رشید ترابی کو گرفتار کیا، جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان افراد نے اقرار جرم کیا۔ خالد قریشی نے بتایا کہ ایک موبائل فون صرف ایک آپریشن میں استعمال کیا جاتا تھا جو کسی دہشت گرد کے نام پر نہیں ہوتا تھا۔ بینظیربھٹو کے قتل کے کچھ ماہ بعد عبادالرحمن نے ٹیکسلا میں شادی کی۔

خالد قریشی نے بتایا کہ نوجوان لڑکوں کو خودکش حملوں کے لئے تیارکیاجاتا تھا،رشیداحمد ترابی زیادہ پڑھا لکھا تھااور وہ کامرہ حملے میں بھی ملوث تھا۔خالدقریشی کے مطابق حسین گل کو خودکش حملے کے لیے راضی کیا گیا۔ کیس میں نصراللہ نامی شخص بھی شامل ہے۔

خالد قریشی کے مطابق بے نظیربھٹو کی موت سر میں شدید چوٹ لگنے سے ہوئی۔ بے نظیربھٹو کو سر کے اطراف دو چوٹیں لگیں۔ ایوان کو رحمن ملک نے بتایا کہ پرویزمشرف نے مذاکرات کے دوران بینظیربھٹو سے کہا تھا کہ انتخابات سے پہلے پاکستان نہ آئیں۔ اس پر بینظیر بھٹو نے کہا کہ یہ فیصلہ وہ خود کریں گی۔

رحمن ملک کے مطابق بینظیر بھٹو کی طرف سے پاکستان نہ آنے کی بات نہ ماننے پر پرویزمشرف نے دھمکی دی تھی کہ واپسی پر نتائج کی ذمہ دار وہ خود ہوں گی۔

رحمن ملک نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو طویل عرصے سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ نوازشریف کے دور میں سیف الرحمن کی طرف سے جھوٹے مقدمات درج کرائے جانے کا سلسلہ پرویز مشرف کے دور میں بھی جاری رہا۔ تاہم محترمہ بینظیربھٹو نے تمام زیادتیوں کے باوجود مفاہمت کا فیصلہ کیا۔

سابق صدر پرویز مشرف کا موقف
ان تحقیقات کے حوالے سے سابق عسکری صدر پرویز مشرف کا مقامی ٹی وی چینل اے آر وائی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کہنا ہے کہ بے نظیر انہیں کبھی خطرہ نہیں سمجھتی تھیں بلکہ وہ تو مجھ سے ڈیل کررہی تھیں۔ صدر نےا نکشاف کیا کہ ان کی بے نظیر بھٹو سے دبئی میں دو مرتبہ ملاقات ہوچکی تھیں۔ بے نظیر اگر گاڑی میں ہوتیں تو محفوظ رہتیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے بے نظیر کو خود فون کرکے بتایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ پرویزمشرف کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فراہم کرنا صدرمملکت کا کام نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میری اور بے نظیر کی ملاقات میں رحمن ملک شامل نہیں ہوتے تھے۔

پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ بے نظیر چاہتی تھیں کہ مقدمات ختم ہوں۔ ویسا ہی ہوابھی۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان آیا ، عدالت جاوٴں گا ، اس میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کا 18 اکتوبر کے بعدسے بے نظیر سے کوئی رابطہ نہیں ہواتھا۔