دیوار برلن کے ٹکڑے کی واشنگٹن میں نمائش

دیوار برلن کے ٹکڑے کی واشنگٹن میں نمائش

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں صحافت سے متعلق عجائب گھر نیوزیم میں دیوار برلن کا ایک ٹکڑا نمائش کےلیے رکھا گیا ہے۔ ایک ایسی دیوار جس نے نہ صرف جرمنی کے شہر برلن بلکہ یورپ کو بھی ایک لمبے عرصے تک تقسیم کیے رکھا۔

جرمنی کا شہر برلن دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949ءمیں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مشرقی برلن کو روس کے زیر انتظام جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کا دارلحکومت بنایا گیا تھا۔ جبکہ مغربی برلن امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے زیر انتظام تھا۔

اس وقت برلن کے دونوں حصوں کے رہائشی روزگار کے لیئے مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان سفر کرتے تھے۔ ۔ ہر روز تقریبا 5 لاکھ لوگ سوشلزم سے سرمایہ دارانہ نظام میں جاتے اور واپس آتے تھے۔

http://www.youtube.com/embed/R3f-LS0zfaE

یہ آزادی 13 اگست 1961ءکو اس وقت اچانک ختم ہوگئی جب ایک ہی رات میں ان دونوں حصوں کے درمیان موجود سرحد کو بند کر دیا گیا۔ ہزاروں لوگ اپنوں سے جدا ہوگئے، گلیوں اور سڑکوں پر فوج نظر آنے لگی ۔ لیکن سب سے حیرت انگیز چیز ایک دیوار تھی جس نے مشرقی برلن کو مغربی برلن سے جدا کر دیا۔

یہ سب کیوں ہوا؟

کیونکہ روس کے زیر انتظام مشرقی برلن میں سوشلزم یا کمیونزم کا نظام ہونے کے باعث لوگ مغربی برلن میں سرمایہ دارانہ نظام کا رخ کر رہے تھے۔ مشرقی جرمنی کی حکومت نے اس صورتحال میں ماسکو سے مذاکرات کے بعد اس سرحد کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسی سال 28 اکتوبر کو امریکی فوج کے بلڈوزر، ٹینک اور جیپیں اس دیورا کو گرانے کے لیئے اس کی جانب بڑھنا شروع ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف سے روسی ٹینکوں نے بھی آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ اس وقت یہ بحران شدت اختیار کرگیا اور پوری رات دونوں طرف سے ٹینک ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے رہے۔ لیکن اگلی صبح دونوں طرف سے فوجیں پیچھے ہٹنا شروع ہوئیں اور یہ فوری بحران ختم ہوگیا لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ دیوار اب قائم رہے گی۔

اس کے بعد دیوار برلن سرد جنگ کی علامت بن گئی ۔ شروع میں دیوار ایک کانٹے دار باڑ تھی ۔ 1962ءمیں اس کے ساتھ ایک دیوار کھڑی کر دی گئی اور اسے لوگوں نے ایلینائزیشن زون اور بعد میں ڈیتھ سٹرپ کا نام بھی دیا۔اس کے دونوں جانب خندقیں، اور مختلف دفاعی اور جنگی رکاوٹیں لگا دی گئیں۔ 1975ءمیں 45 ہزار سیمنٹ بلاکس سے ایک نئی دیوار تعمیر کی گئی ۔

یہ دیوار 20 ہزار 315 دن تک کھڑی رہی۔ ہزاروں لوگ اسے عبور کرنے کی کوشش میں مارے گئے ۔ مغربی جرمنی نے آزاد آمد و رفت کے لیئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ آج اس دیوار کے وجود میں آنے کے 50 سال بعد بھی لوگ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے وہ الفاظ یاد کرتے ہیں جو انھوں نے 1963 میں برلن کے دورے میں کہے تھے۔ انہوں نے کہاتھا کہ ایک آزاد دنیا میں یہ فخر کی بات ہے کہ میں برلن کا رہنے والا ہوں۔

1989 میں یہ دیوار گرا دی گئی، جب مشرقی برلن کی حکومت نے اچانک سرحد کو کھول دیا۔

آج سب ہی متفق ہیں کہ اس دیوار کے گرنے سے دنیا میں ایک مثبت تبدیلی آئی۔ انسانوں کے درمیان تقسیم کی یہ علامت ہمیشہ کے لیئے ختم ہوگئی اور اس دن آزادی کی فتح ہوئی۔