امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن 31 اگست کو ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے یہ اعلان جمعرات کی سہ پہر وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس سے قبل صدر بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا سے متعلق قومی سلامتی کے عہدے داروں سے وہاں کی صورت حال پر بات چیت کی تھی۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ تحفظ کے پیش نظر افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن 31 اگست تک مکمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں قومی تعمیر کے لیے نہیں گئے تھے۔
افغانستان میں جنگ کو سمیٹنے کے لیے اپنی انتظامیہ کی کوششوں سے آگاہ کرتے ہوئے، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب افغانستان کے رہنماؤں کو اکٹھے ہو کر مستقبل کی جانب بڑھنا ہو گا۔
صدر بائیڈن نے ایک ایسے وقت میں امریکہ کے فوجی آپریشن کو ختم کرنے کے اپنے فیصلے کو حق بجانب قرار دیا جب، اخباری اطلاعات کے مطابق، طالبان ملک
بھر میں تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
افغانستان کے بارے میں ان کی انتظامیہ حالیہ دنوں میں متعدد بار یہ کہہ چکی ہے کہ صدر بائیڈن اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس جنگ کا، جسے جیتنا ممکن نہیں، کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
صدر نے کہا کہ آپ اپنے کتنے ہزار مزید بیٹوں اور بیٹیوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟
انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجی آپریشن کے دورانیے میں توسیع کا مطالبہ کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی معقول توقع کے بغیر امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں بھیجوں گا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ انہیں طالبان پر بھروسا نہیں، لیکن انہیں افغانستان کی فوج کی اپنی حکومت کا دفاع کرنے کی صلاحیت پر بھروسا ہے۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن کے پیش نظر بنیادی سوال یہ ہے کہ 20 سال کے بعد بھی کیا انہیں افغانستان کی خانہ جنگی میں مزید امریکی فوجی بھیجنے ہوں گے؟
صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ قطعی ممکن نہیں کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کوئی ایک حکومت افغانستان پر کنٹرول کر لے گی۔ انہوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں۔
صدر نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ امریکہ کی جنگ کا اپنے اختتام پر پہنچنا 'مشن کی تکمیل' نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا مشن اسی وقت مکمل ہو گیا تھا جب ہم نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالا اور دنیا کے اس خطے سے دہشت گردی کا پھیلاؤ بند ہو گیا ہے۔
منگل کو امریکی فوج نے اعلان کیا تھا کہ انخلا کا 90 فیصد کام مکمل ہو گیا ہے اور عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ اگست کے آخر تک فوجیوں کی واپسی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔
وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری جین ساکی نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ افغانستان کے تنازعے کو سفارتی بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے اور یہ کہ وہ فوجی انخلا کے بعد اس ملک میں سفارتی اور انسانی ہمدردی کے کاموں سے متعلق اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ صدر یہ سمجھتے ہیں کہ اس 20 سالہ جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
یکم مئی کے بعد سے، جب سے افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کا انخلا شروع ہوا ہے، طالبان نے کئی علاقوں میں تیزی سے زمینی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جنگ سے متاثرہ اس ملک میں، جہاں اضلاع کی تعداد 400 سے زیادہ ہے، طالبان 150 اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں۔
کابل میں حکام نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ انہوں نے کئی علاقوں میں طالبان کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صوبہ بادغیس میں شدید لڑائی جاری ہے۔ گورنر حسام الدین شمس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان نے صوبائی صدر مقام قلعہ نو کے گرد واقع تمام اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے، جس سے وہ قلعہ نو پر حملے کے قابل ہو گئے تھے۔ قلعہ نو میں جہاں شدید لڑائی کی خبریں ہیں، افغان فورسز کو فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
کابل میں تعنیات قائم مقام امریکی سفیر راس ولسن نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ تشدد میں کمی کر کے مذاکرات کی طرف آئیں۔
طالبان کے حملوں کی وجہ سے افغانستان بھر میں ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے جنہیں خشک سالی، غربت اور کرونا وائرس کی وبا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔