پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کی آٹھویں برسی کے موقع پر دنیا کے کئی ملک، متاثرہ خاندانوں اور پاکستان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں تاہم آج کے دن یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی کے شکار افراد میں ہیں، ارتکاب کرنے والوں میں نہیں۔
وزیرخارجہ نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ میں پاکستان مشن کی جانب سے اے پی ایس میں مارے جانے والے افراد کی یاد میں منعقدہ تقریب کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس تقریب میں شرکت کرنے والے مختلف ملکوں کے نمائندوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
’’ ہم نے پاکستان کے اندر دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی آواز یہاں پہنچائی ہے۔ ان تمام ملکوں کے شکرگزار ہیں جنہوں نے آج کے دن ہمارے ساتھ، دہشت گردی کے متاثرین اور پاکستان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہ‘‘ا،بہت ضروری ہے کہ ہم‘‘ دشتگردی کے شکار افراد کے ساتھ صرف اظہار یکجہتی ہی نہ کریں بلکہ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم کون ہیں۔ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، دہشت گردی کے مرتکب نہیں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کی ندا سمیر نے ان سےسوال کیا کہ اے پی ایس میں مارے جانے والے طالب علموں اور اساتذہ کے ورثا اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ حملے کے منصوبہ سازوں کو انصاف کےکٹہرے میں نہیں لایا گیا اور نیشنل ایکشن پلان میں جو لائحہ عمل بنایا گیا تھا اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
اس کے جواب میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ماضی میں جو کوتاہیاں ہوئیں، وہ اب نہیں ہوں گی۔
’’انہوں نے کہا جہاں تک متاثرین اے پی ایس کے نیشنل ایکشن پلان یا اس کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائیوں پر عدم اطمینان کا سوال ہے، بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ہمارا حکومتی اتحاد پر عزم ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہے اور ماضی میں اس پلان پر عملدرآمد میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں، وہ اب نہیں ہوں گی۔‘‘
پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات پر ردعمل:
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی اپنےردعمل میں کہا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کے بارے میں طالبان حکومت سے بات کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ طالبان اپنے وعدے کے مطابق اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
’’ پاکستان اور افغانستان کو طویل عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ پاکستان نے اے پی ایس پر حملے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف جو آپریشن کیے اس کے بعد صورت حال بہت بہتر ہو گئی تھی۔ کابل میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد ہم نے دوبارہ کچھ واقعات رونما ہوتے دیکھے ہیں۔ ہم افغانستان کے اندر عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور ہم زور دے رہے ہیں کہ ایسی دہشت گرد کارروائیاں نہ ہوں۔‘‘
SEE ALSO: سلامتی کونسل اجلاس، پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ایک دوسرے پر شدید تنقیدانہوں نے کہا کہ طالبان حکومت نے بین الاقوامی برادری سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
’’کوئی بھی افغانستان کو دہشت گردی کا علاقائی مرکز بنتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اور ہم افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اس پر بات کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق ان دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کو یقینی بنائے۔‘‘
پاکستان کی معیشت اور آئی ایم ایف
وزیرخارجہ سے پاکستان کی معیشت کے بارے میں بھی سوالات کیے گئے۔ وائس آف امریکہ کے اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف سے معاملات میں امریکہ کی مدد چاہتا ہے جیسا کہ وزیرخارجہ اسحٰق ڈار کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی تعاون نہیں ہو رہا۔
اس پر بلاول بھٹو نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ آئی ایم ایف کے بارے میں بہتر ہے کہ ڈار صاحب سے ہی سوال کیا جائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ معیشت کے اعتبار سے یہ پاکستان کیلئے ایک مشکل وقت ہے تاہم انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی معاشی ٹیم اس چیلنج کا مقابلہ کر رہی ہے۔
’’جہاں تک آئی ایم ایف کا تعلق ہے اور پاکستان کی معیشت کی بات ہے، ہم بالکل مشکل وقت میں ہیں اور ایک امتحان میں ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور خود وہ فیصلے لے رہے جو ہمارے مفاد میں ہیں۔‘‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم ملک کو مشکلات سے نکالنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئی تھی لیکن سیلاب جیسی بڑی آفت نے صورت حال کو گھمبیر بنا دیا۔
پاکستان کےوزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو خود ہمیں ٹھیک کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی جس انداز میں مدد کی جارہی ہے، دنیا بھی اس کو دیکھ رہی ہے۔
’ہم اپنے وسائل سیلاب متاثرین پر خرچ کر رہے ہیں۔ اگر وہ (دنیا کے ممالک) دیکھیں گے کہ ہم اس طریقے سے کام کر رہے ہیں تو زیادہ امکان ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘