سرینگر کی تاریخیں عمارتیں اور بازار

سرینگر کے علاقے زینہ کدل علاقے میں واقع تاریخی بڈشاہ مرقد یا بڈشاہ ٹومب جس میں شاہمیری دور کے بادشاہ زین العابدین عرف بڈشاہ کی والدہ مدفن ہیں۔ پندرہویں صدی کے اس بادشاہ کا دور کشمیر کی اسلامی تاریخ کا اہم باب کہلاتا ہے۔

سرینگر کے صراف کدل علاقے میں قائم مسجد، بدھ مت اور اسلامی ثقافتوں کا حسین امتزاج ہے جو اس  کی تعمیر میں نمایاں ہے۔ اس کی مغربی دیواریں راجستھان سے لائے گئے لال اور بھورے رنگ کے پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ 

سرینگر اپنی جھیلوں، آبشاروں، مغل باغات، تاریخی عمارات اور دوسری یادگاروں و روایتی دست کاریوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ 

دریائے جہلم  کے دونوں کناروں پر آباد سرینگر کے بازاروں میں خریداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ڈرائی فروٹس سے واشنگ پاوڈر تک اور چائے کی پتی سے چاول تک ہر چیز یہاں فروخت ہوتی ہے۔

سرینگر کے بازار، سڑکیں اور گلی کوچوں میں قائم ہوٹلز اور ریستوران سیاحوں اور مقامی افراد کی توجہ کا مرکز ہیں۔ یہاں ہر قسم کے کھانے دستیاب ہیں۔
 

سرینگر کے بازاروں میں جابجا کھانے پینے کی اشیا کے سٹالز دکھائی دیتے ہیں۔
 

سرینگر کا خیام چوک، منور آباد کا علاقہ، باربی کیو اور اسٹریٹ فوڈ کے لیے پوری وادی میں مشہور ہے۔ تلی ہوئی مچھلی، مرغ مسلم اور دیگر آئٹمز یہاں کی اسپیشل ڈشز ہیں۔ لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں اور سرد موسم میں گرما گرم کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 

سرینگر کی ایک دکان جہاں خشک میوے، مصالحے، چاول، گھی اور دیگر اشیائے خورو نوش فروخت کی جاتی ہیں۔

سرینگر کی ایک دکان پر سرخ مرچیں فروخت کی جا رہی ہیں۔
 

سرینگر کی ایک قدیم مارکیٹ جہاں سبزیوں کے ساتھ ساتھ دوسری اشیا بھی فروخت ہوتی ہیں۔ اس مارکیٹ کی طرز تعمیر قدیم دور کی یاد گار ہے۔ 

شادی اور دیگر پرمسرت مواقع پر پہنے جانے والے نوٹوں کے ہار اور دیگر سامان بھی قدیم مارکیٹ میں ہی فروخت ہوتا ہے۔

بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے چند کاری گر زینہ کدل میں دریائے جہلم کے کنارے لحاف اور گدے بنانے میں مشغول ہیں۔

تیار شدہ لحاف فروخت کی غرض سے مختلف مارکیٹوں اور دکان داروں کو پہنچائے جاتے ہیں۔ سخت سردیوں میں گدے، لحاف یا رضائیوں کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

کرسمس کی آمد پر سرینگر کے مولانا آزاد روڈ پر واقع کیتھولک چرچ کو بجلی کے قمقموں سے سجایا گیا ہے۔

نقطہ انجماد سے  کئی ڈگری نیچے ریکارڈ کیے گئے درجۂ حرارت میں سری نگر کے بہوری کدل علاقے میں چند آٹو رکشا ڈرائیورز سواریوں کے منتظر ہیں۔ انہیں سرد سختی سے خود کو بچانے کے لیے الاؤ روشن کرنے پڑتے ہیں۔