برسلزکانفرنس: 2014ء کے بعد پاکستان کو احتیاط سے کام لینا ہوگا

  • شہناز نفيس
2014ء کے بعد کے ممکنہ منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہوئے فلپ جونز کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ طالبان 2014ء کے بعد اتنے مضبوط ہو جائیں کہ وہ ہی افغان سرحد کی دونوں جانب پشتون علاقوں پر قبضہ جمالیں جو اُن کے الفاظ میں شاید پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہ ہو
برسلز میں نیٹو میں شامل ممالک کے وزراٴ کی کانفرنس کے دوران افغانستان میں جاری مشن پر تفصیل سے تبادلہٴ خیال کیا۔

پیر کے روز سکریٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے افغان صحافیوں کو بتایا کہ نیٹو جنگ کے اختتام کے بعد بھی افغانستان میں سرگرم رہنے کے عزم پر قائم ہے۔ تاہم، اُنھوں نے امید ظاہر کی کہ افغان سکیورٹی فورسز 2014ء کے بعد اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے قابل ہو جائیں گی۔

اِس سوال کے جواب میں کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کیا افغان سکیورٹی فورسز حالات سے نمٹنے کے قابل ہو نگی، اریزونا یونیورسٹی کے ’ڈپارٹمنٹ آف گلوبل اسٹڈیز‘ کے چیرمین، فلپ جونز نے کہا کہ میرے خیال میں 2014ء کے بعد افغان سکیورٹی کے بعض یونٹز کی کارکردگی بعض جگہوں پر بہتر ہوگی اور بعض پہ اتنی اچھی نہیں ہو گی۔

اُن کے بقول، خود کابل کے ارد گرد کے علاقوں کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں پر افغان فورسز کی کارکردگی کیسی ہوگی۔ تاہم، افغان فورسز کی کارکردگی کا انحصار افغانستان کے عوام پر بھی ہے کہ 2014ء کے بعد آیا وہ طالبان کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر افغان حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔

اِس سوال کے جواب میں کہ ایسے حالات میں بین الاقوامی برادری کا افغانستان میں کیا کردار ہوگا، اُنھوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد بیرونی افواج صرف ہنگامی صورتِ حال میں ہی مداخلت کریں گی۔

فلپ جونزنے مزید کہا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے اعلان سے طالبان کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ افغان پولیس اور فوج میں داخل ہو چکے ہیں اور کابل جیسے اہم علاقے میں حملے کرنے کی صلاحیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

2014ء کے بعد کے افغانستان میں پاکستان کے کردار کے بارے میں فلپ جونز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کے مفادات ہیں اور 2014ء کے بعد پاکستان وہاں ایسی حکومت دیکھنے کا خواہشمند ہوگا جو اُس کی اتحادی ہو۔

آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

برسلز کانفرنس: تجزیہ



افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کے بارے میں فلپ جونز نے کہا کہ پاکستان کے تحفظات اپنی جگہ لیکن پاکستان کو بھی یہ سمجھنا چاہئیے کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور اپنی پالیسیاں خود وضع کرنا اُس کا حق ہے۔

2014ء کے بعد کے ممکنہ منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہوئے فلپ جونز کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ طالبان 2014ء کے بعد اتنے مضبوط ہو جائیں کہ وہ ہی افغان سرحد کی دونوں جانب پشتون علاقوں پر قبضہ جمالیں جو اُن کے الفاظ میں شاید پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔

اِس لیے، فلپ جونز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 2014ء کے بعد احتیاط سے کام لیتے ہوئے دہشت گردی کے انسداد میں تعاون جاری رکھنا چاہئیے اور امن کے عمل کی حمایت بھی برقرار رکھنی چاہئیے۔