پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام سے نکالنا ’میرا قابل فخر کام ہے‘

سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا ہے کہ ’’ہمیں پتا تھا کہ پروگرام سے علیحدگی پر آئی ایم ایف کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمیں اپنے قومی مفاد کو ترجیح دینا تھا۔‘‘

سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا ہے کہ ان کے دور میں ان کے لیے قابل فخر لمحہ وہ تھا جب انھوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کیونکہ بقول اُن کے ’’آئی ایم ایف صرف قرضے نہیں دیتی، بلکہ ملکی خودمختاری پر ضرب بھی لگاتی ہے۔‘‘

Your browser doesn’t support HTML5

کیفے ڈی سی: سابق وزیراعظم شوکت عزیز سے خصوصی انٹرویو

شوکت عزیز نے ان خیالات کا اظہار اپنی کتاب ’’بینکاری سے سیاست کی پرخار دنیا تک‘‘ کے اجرا کے موقع پر جمعرات کے روز واشنگٹن میں ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کے چیف فیض رحمٰن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔

شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان بلایا گیا تھا۔۔۔ پہلے چار برس وزیر خزانہ رہے لیکن بعد میں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی ’’تاکہ ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر مستحکم کر سکوں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں پتا تھا کہ پروگرام سے علیحدگی پر آئی ایم ایف کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمیں اپنے قومی مفاد کو ترجیح دینا تھا اور جب ہم نے ان کے پروگرام سے نکلنے کا اعلان کیا اور تمام ادائیگی کردی تو وہ حیران رہ گئے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف سے نکلنے سے پہلے ہم نے زرمبادلہ کے ذخائر کو بتدریج بہتر اور مستحکم کیا گیا جس کے بعد ایک دن میں نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اعلان کر دیا کہ آج رات سے پہلے پہلے آئی ایم ایف کے تمام واجبات ادا کرکے ان کے پروگرام سے علیحدگی اختیار کر لی جائے گی‘‘۔

بقول اُن کے ’’وہ (آئی ایم ایف) معاشی بہتری کے لیے ہمارے منصوبوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ کھڑی کر رہی تھی، اور صرف ان پروگراموں پر عملدرآمد کی اجازت دے رہے تھے جو ان کی جانب سے دی گئی تھی۔۔ یہ صورتحال قومی خود مختاری کے منافی تھی‘‘۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انھیں مختلف ممالک کی معیشت کی بحالی کے لیے کام کا تجربہ تھا۔ اس لیے سابق صدر کی جانب سے انھیں پاکستان کی خدمت کا موقع دیا گیا۔ لیکن، وہ خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ انھیں ملک کی خدمت کا موقع ملا ’’ورنہ نہ وہ کوئی زمیندار تھے نہ ہی بڑے بڑے لوگ ان کے رشتہ دار تھے۔ میرا تعلق متوسط طبقے سے تھا‘‘۔

ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے وزارت قبول کرنے کے لیے کوئی شرط تو عائد نہیں کی تھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’پاکستان ہمارا ملک ہے۔ یہ دل، جسم اور خون میں شامل ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں قوم پرست ہوں۔ بیشک چیلنجز بہت تھے، معیشت کافی خراب تھی، لیکن، مجھے یقین تھا کہ میں اس میں بہتری لاسکتا ہوں۔ اس لیے یہ چیلنج قبول کیا‘‘۔

شوکت عزیز نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ان کے دور میں پاکستان نے امریکہ سے تعلقات میں ’’دوغلے پن‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’’یہ مسلمہ بین الااقوامی اصول ہے کہ ہر ملک اپنے قومی مفاد میں فیصلے کرتا ہے۔ ساری دنیا کے مفادات کو لے کر چلنا کسی بھی ملک کے لیے ضروری نہیں۔ ہاں ،اگر تمام دنیا کو براہ راست نقصان پہنچ رہا ہو تو اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، جیسا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ دہشت گردی خود پاکستان کے لئے نقصان دہ تھی‘‘۔

لیکن ملکی مفاد میں اگر کوئی پوزیشن اختیار کی جائے، اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے، تو پھر اس فیصلے کا دفاع کرنا چاہیئے، کیونکہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے اور اس پر کوئی سودے بازی نہ کرے‘‘۔

شوکت عزیز نے کہا کہ انھوں نے آٹھ برس تک پاکستان کی خدمت کی۔ اس دوران ایک دن بھی چھٹی نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نے دن رات محنت کی۔ مقصد ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا تھا‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ان کی کتاب کا باضابطہ اجراٴ 26 مئی کو ہو گا، جس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی آئیں گے اور جلد ہی اردو میں بھی یہ کتاب دستیاب ہو گی۔

انھوں نے بتایا کہ اس کتاب میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں درپیش مختلف مسائل کو کس طرح حل کیا۔ یہ کتاب آنے والے لوگوں کے لیے بھی رہ نمائی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے، بلکہ پوری دنیا اس سے ستفادہ کر سکتی ہے۔