چین کی معیشت سست، ارب پتی چست

نیویارک کی مہنگی اپارٹمنٹ بلڈنگز میں چینی خریدار دلچسپی۔ (فائل فوٹو)

چین کی 400 سو ارب پتی شخصيات کی دولت میں اس سال 14 فی صد اضافہ ہوا ہے جو ملکی معاشی ترقی کی رفتار 6.7 فی صد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔

چین کی معیشت، جو ایک وقت میں دنیا بھر میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت تھی، اب سست روی کا شکار ہے اور اس کی ذمہ داری اس ملک کے امراء پر بھی عائد ہوتی ہے، جو امیر سے امیر تر ہورہے ہیں اور اپنا سرمایہ بیرونی ملکوں میں بھیج رہے ہیں۔

چین میں سرمائے کی اڑان اس کے باوجود جاری ہے کہ حکومت سرمائے کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور بیرونی بینکوں سے چینی سرمایہ واپس لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔

اس سال چین کی مزید 65 کاروباری شخصیات دنیا کے امیر ترین ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر ہو ا ہے جب ملک کی معیشت نیچے کی طرف جا رہی ہے۔

فوربس میگزیں کی حالیہ اشاعت میں کہا گیا ہے کہ چین کی 400 سو ارب پتی شخصيات کی دولت میں اس سال 14 فی صد اضافہ ہوا ہے جو ملکی معاشی ترقی کی رفتار 6.7 فی صد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔

معیشت سے متعلق چین کے ایک ماہنامے ’ ہورن‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں ارب پتی افراد امریکہ سے زیادہ ہیں جن کی تعاد 535 ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں مرکزی چین میں چینی ارب پتی افراد کی گنتی 594 ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہانگ کانگ، مکاؤ اور تائیوان میں مزید 94 ارب پتی موجود ہیں۔

ایک تھنک ٹینک فریڈم چیئر کے چین میں قائم مرکز سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسکاٹ کینیڈی کہتے ہیں کہ چین میں مکانوں کی غیر معمولی قیمتیں ایک ہوا بھرے غبارے کی طرح ہیں جس نے کئی ارب پتی پیدا کیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ چین کی معیشت 11 ٹریلین ڈالر کی ہے اور اس میں اضافے کی رفتار 7 فی صد سالانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2016 میں اس کی دولت میں مزید 770 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جس سے کچھ اور لوگ ارب پتی بن گئے۔

چین کے جریدے ’ ہورن ‘کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کے 60 فی صد دولت مند جن کی دولت کی مالیت 15 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے بیرونی ملکوں میں جائیدادوں ٕمیں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خاص طور پر امریکی شہروں، جن میں سیاٹل ، لاس اینجلس اور نیویارک شامل ہیں، زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

جریدے کے مطابق چین میں اس وقت امیروں کی تعداد 13 لاکھ 40 ہزار کے لگ بھگ ہے، جن میں سے 8 لاکھ بیرونی ملکوں میں جائیدادیں خريدنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مرکزی چین میں املاک اتنی مہنگی ہیں کہ انہیں بیرونی جائیداد خریدنا سستا پڑتا ہے۔