پاکستان: کم سن بچوں پر بڑھتا جنسی تشدد

معروف سماجی کارکن بلقیس ایدھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں اضافہ بھی ہوا ہے اور اب یہ سب کچھ میڈیا پہ بھی زیادہ آرہا ہے ورنہ غریب کی نہ پولیس مدد کرتی ہے اور نہ اس کی میڈیا تک رسائی ہوتی ہے
پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کی خبریں تواتر سے آنا شروع ہو گئی ہیں جس نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ کیا پاکستان میں بچوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے انتظامات موجود ہیں؟ کیا پاکستان کے قانون میں موجود سقم کی وجہ سے ایسے دلخراش واقعات پیش آتے ہیں یا پھر ملزمان کو ملنے والی کھلی چھوٹ ایسے واقعات میں اضافے کا سبب ہے۔

ایسے ہی اہم سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے ہم نے بہت سے ایسے ماہرین سے بات کی جو پاکستان میں بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے حوالے سے نہ صرف فکر مند ہیں بلکہ اس حوالے سے کام بھی کر رہے ہیں۔


معروف سماجی کارکن بلقیس ایدھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں اضافہ بھی ہوا ہے اور اب یہ سب کچھ میڈیا پہ بھی زیادہ آ رہا ہے ورنہ غریب کی نہ پولیس مدد کرتی ہے اور نہ اس کی میڈیا تک رسائی ہوتی تھی۔ بلقیس ایدھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’میڈیا اور بالخصوص دوسرے ملکوں کے میڈیا نے معاشرے کا ستیا ناس کر دیا ہے ڈراموں اور فلموں میں ریپ کے اتنے کیسز دکھاتے ہیں کہ لوگ جانور بن گئے ہیں۔

پچھلے دنوں لاہور میں ایک پانچ سالہ بچی پہ جنسی تشدد کی خبر اور پھر کئی شہروں سے ایسی ہی خبروں نے معاشرے کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ دوسری طرف اس سوال نے بھی جنم لیا کہ کیا جو ان بچوں پہ گزری اس کو میڈیا پہ ان کی اور ان کے خاندان کی شناخت کے ساتھ بار بار دہرا کر نادانستگی میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مزید ظلم تو نہیں کیا جا رہا؟

ماہر نفسیات ڈاکٹر سلمان کاظم نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ، ’بعض اوقات عدالت یا میڈیا کے سامنے جنسی زیادتی سے متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کا بار بار ذکر کیا جانا ان کے لیے جنسی زیادتی سے بھی بڑھ کر تکلیف کا سبب بن جاتا ہے۔ معاشرے کو یہ امر یقینی بنانا چاہیئے کہ جنسی تشدد سے گزرنے والے افراد کے نام، جنس اور عمر کو جہاں تک ممکن ہو چھپانا چاہئیے۔‘

کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس میں بچوں کے شعبے کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ مہناز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ، ’بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں 80٪ فیصد کوئی قریبی شخص ملوث ہوتا ہے۔ کوئی ایسا شخص جسے بچہ جانتا ہے، جسے بچے کے گھر والے جانتے ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ مہناز کا مزید کہنا تھا کہ، ’صوبہ ِسندھ میں بچوں کے تحفظ کے لئے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بل منظر تو ہو چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد اب تک نہیں ہوا۔


اُن کا کہنا تھا کہ گھر، محلے اور اسکول میں بچوں کا کئی ایسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔ اُن کے بقول، بچوں پہ جنسی تشدد یوں تو گھر اور اسکول جیسی جگہوں پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن بہت سے بچوں کو اغوا کرنے کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر بچوں کو قتل کردینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔

ماہرین کے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے زیادہ تر کیسز میں بچہ اغوا کار اور جنسی تشدد کرنے والے کو جانتا ہے اس لئے اسے بعد میں شناخت کے ڈر سے قتل کر دیا جاتا ہے۔


پولیس اور شہریوں کے درمیان رابطے میں اہم کردار ادا کرنے اور اغوا کی وارداتوں میں شہریوں کی مدد کرنے والے ادارے سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ، ’بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ جنسی تشدد کی روک تھام میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے۔’

اُن کے بقول، بچے آسان حدف ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان کو ایسے شخص کے ساتھ سکول یا کہیں اور بھیجا جائے، جس پر والدین کا مکمل اعتماد ہو، جب کہ، سکول سے واپس آنے کے بعد بھی بچوں پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے۔