شن جیانگ میں تشدد کی کارروائی میں 20 ہلاک

شن جیانگ میں تشدد کی کارروائی میں 20 ہلاک

چین کے شمال مغربی شن جیانگ خطے میں خنجروں سے مسلح افراد نے 13 افراد کو قتل کردیا تاہم سات حملہ آوروں کوپولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے منگل کی رات کاشغر شہر کے قریب ایک قصبے کی مصروف سڑک پر پیدل چلنے والوں کو ہدف بنایا۔ اس جنوبی علاقے میں ایغور مسلمان آبادی اور ہان چینیوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

شن جیانگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں نا تو حملہ آوروں یا اُن کی لسانی شناخت نہیں کی گئی، اور نہ ہی اُن کا ہدف بننے والوں کے بارے میں کوئی تفصیلات دی گئی ہیں۔

’’نو دہشت گردوں نے اچانک ہجوم میں نمودار ہونے کے بعد بے گناہ لوگوں کو خنجر گھونپ کرموت کے گھاٹ اُتار دیا، 13 افراد ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوگئے۔ پولیس نے موقع واردات پر پہنچ کر صورت حال کو پرعزم انداز میں سنبھالتے ہوئے سات دہشت گردوں کو ہلاک اور دو کو گرفتار کرلیا۔‘‘

جس علاقے میں تشدد کی یہ کارروائی کی گئی وہ کشمیر کے متنازع علاقے کے قریب ہے جس کے ایک حصے پر پاکستان اور دو تہائی پر بھارت کا کنٹرول ہے۔

چین کے شن جیانگ خطے میں سرگرم عمل ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ یا ای ٹی آئی ایم ایک آزاد مشرقی ترکستان کی تحریک چلا رہی ہے لیکن چینی حکام اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں جس کے مبینہ طور پر بعض پاکستانی انتہا پسند تنظیموں کےساتھ راوبط ہیں۔

ایغور مسلمان شن جیانگ کی دو کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کا چالیس فیصد ہیں لیکن کاشغر اور دیگر جنوبی حصوں میں ان کی اکثریت ہے۔

جولائی 2009 میں دارالحکومت اورمچی میں ہان چینیوں کے خلاف ایغور مسلمانوں کی پرتشدد کارروائیوں میں سرکاری اندازوں کے مطابق 197 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کی اکثریت ہان کی تھی۔

اس سال جنوری میں چینی حکام نے سات افراد کو ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا جو جہاد شروع کرنے کے لیے ملک سے باہر جانے کی کوشش کررہے تھے۔

ستمبر 2010 میں شن جیانگ کی عدالتوں نے چار لوگوں کو دو شہروں میں تشدد کر کے 32 افراد کو ہلاک کرنے کے جرم میں سزائے موت دی تھی۔ چین کا یہ خطہ قدرتی وسائل بشمول تیل، کوئلہ اور گیس سے مالا مال ہے۔