شادیوں کی چینی مارکیٹ اور پاکستانی مسیحی لڑکیاں

مسیحی لڑکی مہک لیاقت اپنی شادی کا سرٹفکیٹ دکھا رہی ہے۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے نے پیر کے روز آٹھ چینی اور چار پاکستانی افراد کو گرفتار کیا جو شادی کے نام پر لڑکیوں کی تجارت میں ملوث پائے گئے۔

تاہم ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ شادی کا جھانسہ دے کر لڑکیوں کی تجارت اس سے کہیں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے جس میں زیادہ تر پاکستان کی مسیحی برادری کے غریب گھرانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

لاہور سے 8 چینی شہریوں کی گرفتاری کے بعد راولپنڈی سے بھی ایک گینگ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق گینگ کے لیڈر سمیت 7 افراد گرفتار کئے گئے ہیں۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کامران علی نے بتایا کہ مزید گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔ تحقیقاتی ادارے کے مطابق ملزمان کو پہلے سے درج مقدمہ نمبر 19/352 میں گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں گینگ کا سربراہ سانگ چوانگ، سہولت کار ساجد اور رفیق حسین بھی شامل ہیں۔

تحقیقاتی ادارے نے خواتین کی نشاندہی پر 4 ملزمان کو گرفتار کیا، جن میں 2 جوڑے بھی شامل ہیں۔ ان کی شناخت گیونگ دا اور صائمہ مشتاق، فیسنگ بو اور صبا جہانگیر کے ناموں سے ہوئی۔

ایف آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق گرفتار چینی باشندے خود کو مسلمان بتا کر پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کرنے میں ملوث ہیں اور ان کے پاس مسلمان ہونے کا جعلی سرٹیفکیٹ بھی موجود تھا۔ یہ سرٹیفکیٹ مختلف مدارس اور مساجد کے نام پر ہیں، لیکن جب ان مقامات سے ان کی تصدیق حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو کسی نے بھی ان کے مسلمان ہونے کی تصدیق نہیں کی۔

حکام کا کہنا تھا کہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور بعض کے انسانی اعضا کو فروخت کیا جاتا تھا۔

ایف آئی اے کے انسانی اسمگلنگ سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر کامران علی کا کہنا تھا کہ تحقیقات جاری ہیں اور مزید گرفتاریوں کی توقع کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب ایف آئی اے نے لاہور، فیصل آباد سمیت دیگر شہروں سے گرفتار چینی لڑکوں کی پاکستانی عیسائی لڑکیوں سے شادی کی رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے کو ارسال کر دی ہے۔

اب تک کی تحقیقات میں لاہور، منڈی بہاوالدین، فیصل آباد، پتوکی اور ساہیوال سمیت دیگر شہروں کی لڑکیوں کے شادی کے کیس سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی اے کی کارروائی کے بعد کچھ گروہوں کے اہم افراد روپوش ہو گئے ہیں اور جو بطور ترجمان کام کرتے ہیں، ان کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہدف بننے والی متعدد مسیحی لڑکیوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ چینی نوجوان چینی اور پاکستانی بروکرز اور بعض پاکستانی مسیحی پادریوں کی ملی بھگت سے یہ دھندا چلا رہے ہیں، جس میں چینی نوجوانوں کو امیر افراد کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے اور غریب مسیحی گھرانوں کی کم عمر لڑکیوں کے والدین کو بھاری رقوم کی پیشکش کی جاتی ہے۔ چینی لڑکے دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے چینی مذہب تبدیل کر کے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق دلہنوں کے متلاشی چینی لڑکے پاکستانی پنجاب کے مختلف شہروں میں بعض عیسائی پادریوں سے رابطہ کر کے ایسی مسیحی لڑکیوں کی تلاش میں مدد کی درخواست کرتے ہیں جن کے والدین کو شادی کے تمام اخراجات کے علاوہ بھاری رقوم کی پیشکش کر کے اُنہیں راضی کیا سکے اور یوں لڑکیوں کو بیشتر واقعات میں اُن کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

مذکورہ پادریوں کو بھی اس کام کے لیے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے جو خود لڑکیوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں۔ یہ چینی لڑکے چند دن یا چند ہفتے پاکستان میں قیام کے بعد اپنی دلہنوں کو چین لے جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر لڑکیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے چینی دلہا نہ تو امیر ہیں اور نہ ہی اُنہوں نے عیسائی مذہب اختیار کیا ہے۔ بلکہ بیشتر چین کے دیہات میں انتہائی چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور وہاں اپنی دلنہوں کو انتہائی پابندیوں میں رکھ کر اُن سے برا سلوک روا رکھتے ہیں۔

مہک کی شادی گجرانوالہ میں ایک چینی لڑکے سے کی گئی

پاکستان میں چینی لڑکوں کے ساتھ شادی کے واقعات گزشتہ ایک برس کے دوران بڑھ گئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس ایک برس کے دوران 1000 سے زیادہ مسیحی لڑکیاں اس کا شکار ہوئی ہیں۔

صوبہ پنجاب کے انسانی حقوق اور اقلیتوں کے وزیر اعجاز عالم اوگسٹائن کا کہنا ہے کہ یہ سراسر انسانی سمگلنگ ہے اور انتہائی غربت کے شکار لوگ لالچ میں آ کر اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔

اعجاز عالم نے چینی حکومت اور اسلام آباد میں موجود چینی سفارت خانے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ بغیر تحقیق کے ایسے افراد کو ویزے اور سفری دستاویزات جاری کر دیتے ہیں۔ تاہم چینی وزارت خارجہ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر قانونی شادیوں کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے چین اور پاکستان کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لڑکیوں کی اس غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے پوری سنجیدگی سے اقدامات کریں۔ 26 اپریل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ پاکستانی لڑکیوں کو چین لے جا کر اُن سے عصمت فروشی کا دھندا کرانے کی بہت سی شہادتیں موصول ہوئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں کئی دہائیوں سے جاری صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی سرکاری پالیسی کے باعث چین میں مردوں کا تناسب بڑھ گیا ہے جس کے باعث بیرونی ممالک سے لڑکیوں کو لا کر شادی کرنے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

’پیسفک لنکس‘ نامی ایڈووکیسی گروپ کی ڈائریکٹر میمی وو کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر دلہنیں زیادہ تر ویت نام، لاؤس اور شمالی کوریا سے لائی جاتی تھیں۔ تاہم اب پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سپلائی اور ڈیمانڈ کا معاملہ ہے۔

مسیحی فعال کارکن سلیم اقبال کہتے ہیں کہ اُنہیں 750 سے 1000 ایسی لڑکیوں کے بارے میں علم ہے جن کی چینی لڑکوں سے شادی کی گئی۔ پاکستان میں مسیحیوں کی تعداد بیس کروڑ سے زائد آبادی میں صرف 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ان میں سے زیادہ تر لوگ صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔ زیادہ تر مسیحی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے مسیحی دلہنوں کا انتخاب کرنے والے بہت سے چینی افراد پاکستان۔چین راہداری منصوبے کے مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے کے سلسلے میں پاکستان پہنچے، جب کہ دیگر چینی نوجوانوں نے اس سلسلے میں چین میں رہتے ہوئے ایجنٹس کے نیٹ ورک کے ذریعے دلہنوں کی تلاش شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان میں کچھ مسیحی پادریوں نے بھی پیسوں کے عوض اُن کی بھرپور مدد کی اور لڑکوں سے کسی قسم کی کوئی دستاویزات بھی نہیں مانگی گئیں جن سے معلوم ہو سکے کہ آیا اُنہوں نے واقعی مسیحی مذہب اختیار کر لیا ہے۔

چین کے جیانگ ژو صوبے کے ویئر ہاؤس کی دیوار پر شادیوں کا ایک اشہتار

ایک چھوٹے چینی ٹیلی ویژن سٹیشن آئزک ٹی وی سے منسلک صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن اقبال کہتے ہیں کہ دلہن کی تلاش کے سلسلے میں چینی لڑکے اوسطاً ساڑھے تین ہزار سے پانچ ہزار ڈالر کی رقم ادا کرتے ہیں جن میں ایجنٹس، لڑکی کے والدین اور پادری حصہ دار ہوتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہدف بننے والی متعدد پاکستانی مسیحی لڑکیوں سے بات کی ہے اور لگ بھگ تمام لڑکیوں کی کہانی ملتی جلتی ہے۔

مقدس لیاقت

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہدف بننے والی جن پاکستانی مسیحی لڑکیوں سے بات کی اُن میں سے ایک گجرانوالہ کی رہائشی مقدس لیاقت ہے جس کے والدین صرف 16 سال کی عمر میں اُس کی شادی ایک چینی لڑکے سے کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔

مقدس لیاقت شادی کے پانچ بعد کسی طور واپس گجرانوالہ پہنچ گئی۔ اُس کا کہنا ہے کہ چین میں اُس کے ساتھ مسلسل زیادتی کی گئی۔ وہ حاملہ ہے اور طلاق کی خواہش مند ہے۔

مقدس کی ماں نسرین کا کہنا ہے کہ اسے لڑکی کی شادی کے لیے 5,000 ڈالر کی پیشکش کی گئی تھی لیکن یہ رقم ابھی تک ادا نہیں کی گئی ہے۔ نسرین کہتی ہے کہ اُس کے خیال میں وہ اپنی بیٹی کو اچھی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر رہی تھی اور سوچتی تھی کہ رقم حاصل کرنے کے بعد خود اُس کے دن بھی پھر جائیں گے۔

سمبل اکمل

18 سالہ سمبل اکمل کا کہنا ہے کہ اسے اُس کے ماں باپ لاہور کے ایک گھر میں لے گئے جہاں دو دیگر مسیحی لڑکیاں پہلے سے موجود تھیں۔ تین چینی لڑکوں کو وہاں لایا گیا اور سمبل سے کہا گیا کہ وہ اُن میں سے ایک کا انتخاب کر لے۔ اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اُس کے باپ نے اسے مجبور کر دیا۔ سمبل کا کہنا تھا کہ اُس کے باپ نے پیسوں کے لیے اسے چینی لڑکے کے حوالے کر دیا۔ تاہم سمبل شادی کے فوراً بعد وہاں سے بھاگ گئی اور اُس نے اپنی بہن کے ہمراہ انسانی حقوق کے کارکن اقبال کے ہاں پناہ لے لی۔

مہک

مہک کا کہنا ہے کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور اسے بھی اس کے والد نے مجبور کر دیا۔ شادی کے بعد اُس کا چینی شوہر لی تاؤ اسے لے کر چین کے چین لو نامی گاؤں میں لے گیا جہاں اس کے ساتھ مسلسل زیادتی ہوتی رہی۔ بالآخر جب مہک کے خاندان نے اسے واپس لانے کے لیے پاکستانی حکومت سے مدد کی درخواست کی تو لی تاؤ کے گھر چینی پولیس پہنچی اور اسے واپس پاکستان لایا گیا۔

مہک کے دادا ادریس مسیح نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مہک کی مدد سے اُس نے ایک فون ایپ کے ذریعے چین میں موجود ایسی کئی پاکستانی لڑکیوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سب سخت مشکل میں ہیں اور اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتی ہیں۔ تاہم اُن کے والدین نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادی کر دی تھی۔ اب یہ اُن کی اپنی زندگی اور قسمت ہے جس سے اُن کا کوئی سروکار نہیں ہے۔