چین کی تیزی سے ترقی کرتی فلم انڈسٹری

چین اور امریکہ کے فلم ساز خواہاں ہیں کہ دونوں ممالک کے فلم ساز ملکر فلمیں بنا سکیں۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟
چین کی فلم انڈسٹری آئندہ چند برسوں میں آمدنی کے لحاظ سے ہالی ووڈ کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ چین کی فلم انڈسٹری میں استحکام کی وجہ دنیا بھر میں چینی فلموں کے سب سے زیادہ شائقین ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے اس شعبے میں سرمایہ کاری بھی ہے۔

چین کے ساحلی شہر تائینجن میں فلم انڈسٹری کے لیے ایک مربع کلومیٹر کی جگہ مختص کی گئی ہے جہاں 13 ملین ڈالر کی لاگت سے دفاتر، گھر، فلم سٹوڈیوز تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہاں فلمی صنعت سے متعلق جدید ترین مشینیں اور سازو سامان بھی رکھا گیا ہے۔

پنگ جیانگ ’ییلو ماؤنٹین فلم‘ کے سربراہ ہیں۔ ان کی کمپنی نے چین کے اس ’تائنجین سٹوڈیو‘ میں اپنا صدر دفتر بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’اُن کے پاس دنیا کا سب سے طاقتور کمپیوٹر ہے۔ ہمیں یہ سہولت حاصل ہے کہ ہم نے اپنا سسٹم اس طاقتور ترین کمپیوٹر کے ساتھ بذریعہ فائبر جوڑا ہوا ہے۔ اور یہ ہماری اینی میشن فلموں کے لیے بہت اچھا ہے۔ اور یہ سہولت پہلے ایک سال مفت ہے جبکہ دوسرے سال بھی معمولی کرایہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔‘

پنگ جیانگ امریکہ اور کینیڈا میں کام کر چکے ہیں اور واپس چین اس لیے آئے تاکہ ’کو پروڈکشن‘ کے کاروبار کے امکانات کا جائزہ لے سکیں۔

چینی حکومت ہر برس دوسرے ممالک کی صرف 34 فلموں کی اپنے ملک میں نمائش کی اجازت دیتی ہے لیکن ’کو پروڈکشنز‘ پر ایسی کوئی پابندی نہیں عائد ہے۔ مگر فلم سازوں کا کہنا ہے کہ چین میں کسی دوسرے ملک کے ساتھ مل کر فلم بنانے کا عمل خاصا مشکل ہے۔

ہر برس فقط چند ہی امریکی فلموں کو ’کو پروڈکشن‘ کی اجازت دی جاتی ہے لیکن چین کی فلمی صنعت سے منسلک افراد کو امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں حالات بدلیں گے اور اس ضمن میں ترقی ہوگی اور چین اور امریکہ مل کر فلمیں بناسکیں گے۔