چین کا سمندری تنازع پر طاقت استعمال نہ کرنے کا اعلان

(فائل فوٹو)

چین نے کہا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ ’ساؤتھ چائنہ سی‘ بحیرہ جنوبی چین میں جاری تنازعات میں طاقت کا استعمال نہیں کرے گا۔ تاہم چینی حکام نے امریکی اراکین سینیٹ کے اس بیان کو بلاوسطہ طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے تحت اس آبی گزرگاہ سے ہونے والی نقل و حمل کی حفاظت کے لیے امریکی فوج کی تعیناتی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

منگل کے روز معمول کی پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے کہا کہ چین ویتنام اور فلپائن کے ساتھ جاری اپنے سمندری سرحدی تنازعات میں "طاقت کے استعمال یا طاقت کے استعمال کی دھمکی" کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔

چین کا سمندری تنازع پر طاقت استعمال نہ کرنے کا اعلان



تاہم ترجمان نے الزام عائد کیا کہ کچھ ممالک نے اس حوالے سے "بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ بیانات" جاری کرکے تنازعات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ وہ ممالک جو تنازعات کے براہ راست فریق نہیں ہیں اُنھیں چاہیئے کہ وہ متعلقہ ممالک کو براہِ راست اپنے مسائل حل کرنے دیں۔

ترجمان کے مذکورہ بیان کو مشرقی ایشیاء سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کی نگراں کمیٹی کے دو اہم امریکی سینیٹرز کی جانب سے پیر کے روز پیش کی گئی مجوزہ قانون سازی کا بظاہر ردِ عمل قرار دیا جا رہا ہے۔

سینیٹرز جم ویب اور جیمز ان ہوف نے چین پر آبی تنازعات میں طاقت کے استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکی فوج سے بحیرہ جنوبی چین میں "نقل و حمل کے اختیارات کی آزادی کا دفاع" کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کے روز واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر جم ویب کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ان تنازعات پر بہت کمزور موقف اپنایا ہے۔

پیر کے روز ویتنام کی فوج کی جانب سے ملک کے مشرقی ساحل سے متصل اس سمندر میں کئی گھنٹے طویل فوجی مشق کی گئی جس پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ویتنام کی حکومت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ چین کے ساتھ ممکنہ محاذ آرائی کی صورت میں اگر امریکہ نے اُس کو مدد فراہم کی تو اُس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

گزشتہ برس ہونے والے علاقائی سلامتی سے متعلق ایک اجلاس کے میں امریکہ بھی ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے بحیرہ جنوبی چین میں جاری تنازعات کے حل کے لیے کثیر الجہتی حکمتِ عملی بنانے پر زور دیا تھا لیکن چین نے اس مطالبہ پر برہمی اظہار کیا تھا۔

امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن بھی اس بحری گزر گاہ میں آزادانہ نقل و حمل یقینی بنانے کو امریکہ کے قومی مفاد میں قرار دے چکی ہیں۔

تاہم واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے چین، ویتنام اور فلپائن کے مابین جاری حالیہ تنازعات پر کسی شدید ردِعمل کے اظہار کی بجائے تمام فریقین سے اپنے اختلافات پرامن طریقے سے طے کرنے کی اپیل پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے ویتنام نے اعلان کیا تھا کہ وہ علاقے میں امن اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے "عالمی برادری" کی مزید کوششوں کا "خیرمقدم" کرے گا۔

حالیہ تنازع کا آغاز گزشتہ ماہ اس وقت ہوا تھا جب ویتنام نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے دعویٰ کردہ مخصوص معاشی زون میں تیل کے ذخائر کا سروے کرنے والے ایک ویتنامی جہاز کی کیبلز ایک چینی فوجی کشتی نے کاٹ دی ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی ایک چینی کشتی سمندری علاقے میں ایک ایسے ہی کیبل سے الجھ گئی تھی۔

چین نے گزشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعہ کو حادثہ قرار دیا تھا تاہم ساتھ ہی چینی حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ دونوں واقعات چین کی آبی حدود میں پیش آئے ہیں۔

اسی دوران فلپائن کی جانب سے بھی یہ الزام سامنے آیا تھا کہ اس کے مخصوص معاشی زون میں شامل غیر آباد جزیروں پر چین کی جانب سے تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ فلپائن کے مطابق چین کا یہ عمل علاقائی ممالک کی تنظیم 'آسیان' کے 2002ء میں میں منعقدہ اجلاس میں طے کردہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔

چین کا موقف ہے کہ اس کی سرگرمیاں چینی حدود میں آنے والے سمندر میں کی جارہی ہیں جو قانونی ہیں۔

چین کا سمندری تنازع پر طاقت استعمال نہ کرنے کا اعلان