چین میں ایغور برادری کا ماضی و حال

چین کی شمال مغربی ریاست سنکیانگ میں آباد مسلم اکثریت والی ایغور برادری طویل عرصہ سے حکومت کی جانب سے ظلم و ستم کی شکایت کرتی آئی ہے۔

چینی حکومت نے بیجنگ کے مشہور تیانینمین اسکوائر میں رواں ہفتے پیش آنے والے واقعہ کو خودکش حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے مذہبی انتہاپسندوں پر عائد کی ہے۔

جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ایغور برادری کے رہنما نے اس سلسلے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

سنکیانگ میں 2009ء میں ایغور اور ہان کے درمیان نسلی فسادات میں 197افراد مارے گئے تھے۔

ایغور آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اور ان کا شکوہ ہے کہ وہ سنکیانگ میں آکر آباد ہونے والے ہان نسل کے باشندوں کے مقابلے میں معاشی و ثقافتی طور پر کمزور ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ رواں برس سنکیانگ میں پرتشدد جھڑپوں میں لگ بھگ 100 افراد مارے جا چکے ہیں۔

صوبے سنکیانگ میں حالیہ برسوں کے دوران فسادات ہوتے رہے ہیں۔

حالیہ برسوں کے دوران مقامی آبادی اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تشدد کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔

سنکیانگ کی معیشت کا دارومدار زراعت اور تجارت پر ہے۔

سنکیانگ میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں جن میں ترک زبان بولنے والے نسلی ایغور باشندے بھی شامل ہیں ۔