بھارت: 'شہریت ترمیمی بل' مخالفت کے باوجود لوک سبھا سے منظور

بل کے حق میں 311 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ 80 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'لوک سبھا' نے غیر مسلم تارکین وطنوں کو شہریت دینے سے متعلق متنازع 'شہریت ترمیمی بل' منظور کر لیا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس بل کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔

لوک سبھا میں پیر کو ​وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے متنازع شہریت ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا جس پر تقریباً 12 گھنٹے تک بحث جاری رہی۔ بل پیش کیے جانے کے دوران پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف اور حکومتی اراکین کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

بل کے حق میں 311 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ 80 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ کثرت رائے سے بل کی منظوری پر اپوزیشن بینچز نے ​زبردست شور شرابہ کیا۔

بل کا مقصد 1955 کے شہریت قانون میں ترمیم کرنا اور پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی برادری کے افراد کو شہریت دینا ہے۔ جو لوگ 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے قبل ان ملکوں سے بھارت آئے ہیں ان کو یہاں کی شہریت دی جائے گی۔

حزبِ اختلاف اس بل کو آئین کے منافی اور مسلم اقلیت کو ہدف بنانے کا مقصد قرار دیتی ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس نے 1947 میں مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نہ کرائی ہوتی تو اس بل کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

وزیرِ داخلہ کے اس بیان پر ایک بار پھر ایوان میں ہنگامہ ہوا اور کانگریس ارکان نے بیان کی مخالفت کی۔

'ستائے گئے لوگوں کو شہریت دیں گے'

امیت شاہ نے حزبِ اختلاف کے اس الزام کو غلط قرار دیا کہ بل سے آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

انہوں نے اس مؤقف کی بھی تردید کی کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اُن کے بقول، اگر مذکورہ ملکوں سے کوئی مسلمان بھی آتا ہے اور یہاں کے ضابطے کے مطابق درخواست دیتا ہے تو اس کو بھی شہریت دی جائے گی۔ البتہ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ مذکورہ بل سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذکورہ برادریوں کے افراد کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ہندو اور سکھ برادری کی خواتین کے مبینہ اغوا اور ان کے جبراً تبدیلی مذہب کے اعداد و شمار بھی پیش کیے۔

امیت شاہ نے کہا کہ شرنارتھیوں (پناہ گزینوں) کو خواہ ان کے پاس کوئی بھی کاغذ نہ ہو، انہیں شہریت دی جائے گی۔ جو لوگ ستائے جانے کی وجہ سے بھاگ کر بھارت میں آ رہے ہیں وہ پناہ گزین ہیں اور جو غیر قانونی طور پر گھس کر آ رہے ہیں وہ گھس بیٹھیے (درانداز) ہیں۔ ان دونوں میں فرق کرنا ہوگا۔ ہم شرنارتھیوں کو شہریت دیں گے اور پناہ گزینوں کو نکال باہر کریں گے۔

کانگریس کے منیش تیواری نے کہا کہ 'دو قومی نظریے کا فلسفہ کانگریس نے نہیں بلکہ ہندو مہا سبھا کے لیڈر ساورکر نے 1935 میں پیش کیا تھا۔

بل کی کاپی پھاڑ دی گئی

انھوں نے کہا کہ یہ بل دستور کی دفعات 14/ 15/ 21/ 25 اور 26 کی خلاف ورزی ہے۔ ان دفعات میں شہریوں کے درمیان مساوات کی بات کی گئی ہے اور یہ بل اس کے خلاف ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر لایا گیا ہے۔ ہم اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔

سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے کہا کہ بل آئین کی بنیادی روح کے منافی ہے۔ یہ دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ آئین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ ملک تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے۔ انہوں نے شہریت ترمیمی بل کو غیر آئینی قرار دیا۔

مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی کاپی ایوان میں پھاڑ دی۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی نے بھی جنوبی افریقہ کے ایک ایسے ہی امتیازی بل کی کاپی پھاڑی تھی۔ لہٰذا میں بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی نقل پھاڑ رہا ہوں۔

حزب اختلاف کے دیگر متعدد ارکان نے بھی بل کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ یہ مسلم اقلیت کے خلاف ہے اور شہریت کو مذہب سے جوڑتا ہے۔

امت شاہ نے ان اعتراضات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ بل سے آئین کی کسی بھی دفعہ کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بل چونکہ تین ملکوں کی اقلیتوں سے متعلق ہے اور ان ملکوں میں مسلمان اقلیت میں نہیں ہیں اس لیے اس بل کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انھوں نے اپوزیشن کے اس اعتراض پر کہا کہ میانمار، نیپال اور سری لنکا بھی پڑوسی ملک ہیں ان کی اقلیتوں کو اس میں کیوں نہیں شامل کیا گیا اور روہنگیا کو کیوں نہیں شہریت دی جا رہی ہے، کہا کہ بل صرف تین ملکوں سے متعلق ہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے عندیہ دیا کہ اس کے بعد 'این آر سی' بل لایا جائے گا اور پورے ملک میں اسے نافذ کیا جائے گا۔

متنازع شہریت ترمیمی بل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مفیض جیلانی نے کہا کہ چونکہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، اس لیے حکومت کی نیت پر شبہ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش سے بہت سے مسلمان اور ہندو آئے ہیں۔ لیکن حکومت ہندوؤں کو شرنارتھی (پناہ گزین) اور مسلمانوں کو درانداز بتاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ جو بھی پناہ گزین ہے، اسے شہریت دے۔ صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کو الگ کرنا غلط ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے گزشتہ پارلیمانی اجلاس کے دوران بھی اس بل کو لوک سبھا میں پیش کیا تھا جہاں یہ بل منظور ہو گیا تھا۔ لیکن اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے اسے راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ کالعدم ہو گیا تھا۔

واضح رہے کہ مذکورہ بل کے خلاف بھارتی ریاست آسام اور شمال مشرق کی کئی دیگر ریاستوں میں شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ بل غیر قانونی تارکین وطن کی بھارت آمد کو روکنے سے متعلق عشروں پرانے معاہدے کو کالعدم کر دے گا۔

پاکستان کا ردعمل

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بل کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی حقوق جبکہ پاکستان اور بھارت کے باہمی معاہدوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نریندرمودی حکومت کا یہ اقدام 'ہندوتوا' کے پرچار کا عملی نمونہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عالمی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر وہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی انضمام کے خلاف عملی اقدامات کریں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی شہریت ترمیمی بل کی لوک سبھا سے منظوری کی مذمت کی ہے۔ دفتر کے خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ بل کی منظوری عالمی انسانی حقوق اور مذہب کے نام پر تقسیم کے خاتمے کے عالمی قوانین کے منافی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام پاکستان اور بھارت کے درمیان اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کی پاسداری کے طے شدہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ اقدام مذہب کے نام پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔