سانحہ آرمی پبلک اسکول، وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری

فائل

پشاور ہائی کورٹ نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں 16 دسمبر 2014ء کو ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں دائر کی گئی دو درخواستوں پر وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحٰی آفریدی اورجسٹس محمد غضنفر پر مشتمل دورکنی بینچ نے منگل کو فضل خان ایڈوکیٹ اور اجون خان کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

فضل خان ایڈوکیٹ نے اپنے درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالت اس سانحے کے بارے میں حکام کو ان کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دے اور اس بیان کی روشنی میں متعلقہ افراد کے خلاف ایف آئی آررج کرائی جائے۔

مقدمے کے دوسرے درخواست گزار اجون خان کاموقف ہے کہ عدالت اس ہولناک سانحے کی عدالتی تحقیقات کاحکم دے۔

اجون خان کی جانب سے عدالت میں درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل نوید اختر ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے موکل کی استدعا ہے کہ اس سانحے کی تحقیقات ایک عدالتی کمیشن سے کرائی جائے کیونکہ شہید ہونے والے بچوں کے والدین کو حکومتی اقدامات اور تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے کئی واقعات کی تحقیقات عدالتی کمیشن سے ہوئی ہے جبکہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والا واقعہ بھی ایک بڑا سانحہ تھا جس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

سولہ دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں 133 طلبہ سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں درخواست گزار فضل خان اور اجون خان کے بیٹے بھی شامل تھے۔ مقتول طلبہ کے والدین سانحے کے بعد سے حکومت کی کاروائی پرعدم اطمینان کا اظہار اور فوقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے ہیں۔

حملے میں ملوث سہولت کاروں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے ہیں جن میں سے کئی کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔