امریکہ سعودی عرب خطے میں لیے گئے اقدام کے حامی

اِس بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تنائو کے باعث امریکہ کو خطے کے دیگر علاقائی معاملات پر پیش رفت کے حصول میں رکاوٹ پیش آ سکتی ہے، مثال کے طور پر شام کا بحران

ایسے میں جب کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں گرمجوشی کے باعث امریکہ کے اتحادی، سعودی عرب کو بے وفائی کا شبہ ہے، ہفتے کے روز وزیر خارجہ جان کیری کی سعودی اور خلیج کے عہدے داروں سے ملاقات میں اس خیالی دوری کا کوئی عندیہ نہیں ملا۔

ریاض میں ہونے والی یہ ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب ایران سے متعلق کئی ایک سرگرمیاں پیش نظر ہیں جن میں جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کا معاملہ بھی شامل ہے۔ ایران کی جانب سے 10 امریکی ملاحوں کو کچھ دیر حراست میں لینے کے بعد رہا کرنا اور ایران کی جیل سے چار امریکیوں کی رہائی سے قبل قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔ گذشتہ ہفتے، تقریباً اُسی وقت ایران نے پانچویں امریکی کو بھی رہا کر دیا۔

اِن معاملوں کے باوجود، سعودی وزیر خارجہ عدل الجبیر نے کہا کہ ''میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ اور ایران آپس میں مل گئے ہیں''۔

جبیر نے یہ بات اُس وقت کہی جب وہ ہفتے کے روز اخباری کانفرنس کے دوران کیری کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔

اُن کے بقول، ''میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ کو یہ غلط فہمی ہے کہ ایران میں کس قسم کی حکومت ہے''۔

حالانکہ جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کے نتیجے میں ایران پر سے تعزیرات اُٹھالی گئی ہیں، لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گرد گروہوں کی پیش پناہی سمیت سرگرمیوں کی پاداش میں اُس پر اب بھی امریکی پابندیاں لاگو ہیں۔ مزید یہ کہ جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کے فوری بعد، ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر امریکہ نے ایران کے خلاف نئی تعزیرات عائد کی ہیں۔

تعزیرات

تاہم، کچھ طبقوں کا کہنا ہے کہ سمجھوتے پر عمل درآمد کے نتیجے میں تعزیرات کے معاملے پر ملنے والی نرمی، امریکی اندازوں کے مطابق، ایران کو منجمد کم از کم 55 ارب ڈالر تک رسائی میسر آگئی ہے، جس سے ایران مضبوط ہو سکتا ہے۔

نبیل خوری، 'ایٹلانٹک کونسل مڈل ایسٹ' میں تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ''ایرانی پُراعتماد ہیں کہ اُنھیں بین الاقوامی برادری میں واپس لایا جا رہا ہے اور یہ کہ خطے اور دنیا میں اُن کے کردار کو بہتر طور پر تسلیم کیا جائے گا، خاص طور پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے''۔

اُن کے الفاظ میں، ''اِن باتوں سے سعودی عرب کو پریشانی ہوتی ہے، کیونکہ وہ ایران پر اعتماد نہیں کرتا''۔

سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اِسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ''ہم سمجھتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب علاقے میں دو اہم ملک ہیں، جو ایک دوسرے کو برداشت کر سکتے ہیں''۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ، ''بدقسمتی سے، سعودی عرب کو یہ غلط فہمی ہے کہ اپنے مغربی اتحادیوں کی پشت پناہی میں، ایران کو خطے سے باہر نکالا جا سکتا ہے''۔

سعودی عرب، جو خطے کا سنی آبادی والا اکثریتی ملک ہے، اور ایران جہاں شیعہ آبادی ہے، اُن کے تعلقات اس ماہ اُس وقت کشیدہ ہوئے جب سعودی عرب نے معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دی۔ احتجاج کرنے والے مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا، جس پر سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کردیے۔

جوناتھن شیزر، 'فائونڈیشن فور ڈفنس آف ڈیموکریسیز' میں مشرق وسطیٰ کے مطالعے کے حوالے سے ماہر مانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ النمر کی سزا کے ذریعے سعودی عرب کھل کر عام پیغام دینا چاہتا تھا۔
شینزر کے بقول، ''ہم (امریکیوں) نے اِسے بدتر بنا دیا۔ اب سعودی اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں اور وہ اب معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں''۔

جمعے کے روز، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے کہا کہ امریکہ کو ''ایران میں سعودی تنصیبات پر حملے پر سعودی برہمی'' کا ادراک ہے۔