سیلابی علاقوں میں پیدا ہونے والی بیماریاں اور بچاؤ کی تدابیر

پاکستانی تاریخ کے بدترین سیلاب نے جہاں ملک کے طول و عرض میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا ہے وہیں انہیں صاف پانی، غذا اور صحت مند ماحول سے بھی محروم کردیا ہے جس کے سبب جہاں متاثرینِ سیلاب کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے، وہیں عالمی اداروں کی جانب سے وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے حالیہ دنوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کالراکے کیسز رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، بشمول ٹائیفائیڈ بخار، ہیپاٹائٹس اے اور ای، اور مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں ملیریا اور ڈینگی کی وبائی صورت اختیار کرجانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ عالمی امدادی ایجنسیوں کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ افراد خصوصاً بچوں میں نمونیا، ڈائریا اور ملیریا کے کئی کیسز بھی رپورٹ کیے گئے ہیں۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ بیماریوں کی ابتدائی کیسز اور سیلابی علاقوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ قرین از قیاس ہے کہ یہ بیماریاں وبائی صورت اختیار کرکے آبادی کے وسیع حصے کو متاثر کریں،اور ان اداروں کے مطابق اگر ایسا ہوا تو ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جن بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، ان کا مختصر تعارف اور ان سے بچاؤ کی تدابیر حسب ذیل ہیں:

کالرا

آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماری کالرا کا حملہ انتہائی تیزی اور برق رفتاری سے مریض کو ڈائریا کا شکار کر کے جسم میں پانی کی شدید قلت پیدا کر دیتا ہے اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو مریض چند ہی گھنٹوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔

تاہم ڈاکٹرز کے مطابق کالرا کے اسی فیصد سے زائد کیسز جسم میں پانی کی مقدار بڑھانے والی نمکیات، خصوصآً او آر ایس کے استعمال سے صحت مند ہو جاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سندھ گورنمنٹ ہاسپٹل کے ڈاکٹر وسیم الدین ساجد نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ آبادیوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور علاقے میں نکاسی آب کا درست انتظام اس مرض کو وبائی صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کالرا کے سدباب کے لیے ویکسینیشن بھی مفید ثابت ہوتی ہے اور حکومت کو متاثرہ علاقوں میں بنیادی امیونائزیشن کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق سیلاب سے ہونے والی وسیع تر تباہی کے باعث متاثرہ علاقوں میں کالرا کی ویکسین کی وقفے سے دی جانے والی دو خوراکوں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہوگی۔

ٹائیفائڈ بخار

سیلمونیلا ٹائفائی نامی بیکٹیریا سے پھیلنے والی اس بیماری کی واضح علامات تیز بخار، بدن میں درد، سر درد، قبض اور ڈائریا کی شکایت کا ہونا، سینے پر سرخ دھبوں کا نمودار ہونا اور جگر کا بڑھ جانا ہے۔ ٹائیفائد کا جرثومہ مریض کے فضلے کے ذریعے پھیل کر دیگر لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کے باعث سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹائیفائڈ کے وبائی صورت میں پھیلنے کا خطرہ شدت سے موجود ہے۔

اندرونِ سندھ کے شہر خیرپور میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے تحت سیلاب زدگان کے لیے قائم کردہ طبی کیمپ میں خدمات انجام دینے والی لیڈی ڈاکٹر لبنی ٰ سلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے کیمپ میں لائے جانے والے بیشتر مریض خصوصاً بچے ٹائیفائڈ اور اسی قبیل کی دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن کا علاج ان کے مطابق امدادی کیمپوں میں دستیاب اینٹی بایوٹکس کے ذریعے کیا جارہا ہے ۔

تاہم ڈاکٹر لبنیٰ کا کہنا تھا کہ اس بیماری میں عام طور پر استعمال کی جانے والی اینٹی بایوٹکس ادویات سے مدافعت کی قوت بھی موجود ہے جس کے باعث اس کا علاج طویل ہو سکتا ہے اور بیشتر مریضوں کو مناسب دیکھ بھال کے لیے بڑے شہروں کی جانب بھیجا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحت مند لوگوں کو ٹائیفائڈ کے مریضوں کے زیرِ استعمال اشیاء، خصوصاً پانی اور کھانے پینے کی چیزوں اور مریض کے زیرِ استعمال برتنوں اور کپڑوں وغیرہ سے احتیاط برتنی چاہیے۔

ہیپا ٹائٹس اے اور ای

ہیپاٹائٹس کی ان دونوں اقسام کی وجہ بننے والا جرثومہ مریض کے فضلے کے ذریعے منتقل ہو کر پانی اور غذائی اشیاء کو آلودہ کرکے مزید لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس بیماری کے پھیلنے کی بنیادی وجہ نکاسی آب کا درست انتظام نہ ہونے اور پانی کا کسی آبادی میں طویل عرصہ کھڑا رہنا ہے۔ لہذا سیلابی علاقوں کی موجودہ صورتحال اس بیماری کے پھیلنے میں سازگار ہے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے عموماً اس مرض کا باقاعدہ کوئی علاج تجویز نہیں کیا جاتا بلکہ مریض کو صحت مند غذا اور ماحول کی فراہمی اور مناسب دیکھ بھال سے یہ مرض دور ہوسکتا ہے۔

ملیریا اور ڈینگی

مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ دونوں بیماریاں سیلاب زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیلتی ہیں جس کی بنیادی وجہ سیلابی پانی کے آبادیوں میں گھس آنے اور مناسب نکاسی نہ ہونے کے باعث مچھروں کی پیدائش و پرورش کا انتظام بہم پہنچنا ہے۔ ڈاکٹر لبنی کا کہنا تھا کہ قوتِ مدافعت کم ہونے کے باعث ملیریا سے بچوں اور حاملہ خواتین کے متاثر ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جن تک علاج کی بروقت فراہمی نہ ہونے کے باعث یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملیریا کا علاج آرٹیمینسن نامی جز پر مشتمل دواؤں اور مناسب دیکھ بھال سے ممکن ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈینگی بخار کا کوئی باقاعدہ علاج تاحال دریافت نہ ہونے کے باعث ڈاکٹرز اس مرض کی جلد از جلد تشخیص اور اسپتال میں علیحدگی میں رکھ کر کی جانے والی مناسب دیکھ بھال کو مریض کی جان بچانے کے لیے لازمی گردانتے ہیں۔

لیپٹوس پائروسس

اس بیماری کا جرثومہ بنیادی طور پر جنگلی اور پالتو جانوروں، مثلاً کتوں، مویشیوں، گھوڑوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں میں پایا جاتا ہے۔ اس جرثومہ کی انسانی جسموں تک منتقلی عموماً ایسے مقامات پر ہوتی ہے جہاں جانور اور انسان ایک مختصر سی جگہ پر ساتھ رہنے پہ مجبور ہوں اور اسی وجہ سے موجودہ صورتحال میں اس بیماری کے بھی سیلابی علاقوں میں پھوٹ پڑنے کے امکانات موجود ہیں۔ یہ جرثومہ مذکورہ جانوروں کے فضلے یا اس سے متاثر ہونے والے پانی کے جوہڑوں، مٹی اور پودوں سے رابطے میں آنے والے انسان کے جسم میں کھلے زخم، خراشوں یا منہ، ناک اور کان کے ذریعے داخل ہو کر فرد کو متاثر کرتا ہے۔ عموماً بارشوں کے موسم میں اس بیماری کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ سیلابی صورتحال میں یہ بیماری وبائی صورت اختیار کرکے بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لیے فوری طور پر ماہر ڈاکٹرز سے رجوع اور اسپتال تک رسائی لازم قرار دی جاتی ہے اور ان میں تاخیر سے مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔