طورخم سرحد کے ذریعے سفر کے لیے پاسپورٹ ضروری

فائل فوٹو

پاسپورٹ اور ویزے کی شرط نافذ ہونے سے قبل روزانہ تقریباً بیس سے پچیس ہزار افراد طورخم سرحد کے آر پار آتے تھے لیکن یہ تعداد حالیہ دنوں میں کم ہو کر لگ بھگ دو سے تین ہزار کے درمیان رہ گئی ہے۔

طورخم کے راستے پاکستان اور افغانستان آنے جانے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے میں نرمی کی مدت 31 دسمبر کو ختم ہونے کے بعد نیا سال شروع ہوتے ہی آمدورفت کے لیے یہ شرط بحال کر دی گئی ہے جس کے بعد اس اہم سرحدی گزرگاہ سے آنے والے جانے والوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔

حکام کے مطابق پیر کو تقریباً دو سو ایسے افراد کو افغانستان جانے سے روک دیا گیا جن کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ نہیں تھا۔

عرصہ دراز سے طورخم کے راستے آنے جانے والوں کے لیے کوئی خاص روک ٹوک نہیں تھی لیکن گزشتہ سال ہی سرحدی امور کو موثر بنا کر نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی تھی۔

تاہم سرحد کے دونوں جانب آباد شنواری اور آفریدی قبیلے کے لوگ اس شرط سے مستثنیٰ ہیں اور انھیں آمدورفت کے لیے خیبر ایجنسی کی انتظامیہ کے خصوصی اجازت نامے جاری کر رکھے ہیں۔

طورخم سرحد کے قریب رہائش پذیر ایک قبائلی اخلاق خان شنواری نے پیر کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پابندی کے اطلاق کے بعد سے یہاں ماضی کی نسبت لوگوں کا رش کم ہے۔

"تعداد کم ہے پاکستانیوں کی بھی اور ادھر افغانستان سے بھی کم ہے۔ صرف شنواری اور آفریدی قبیلے والے ایسے جا سکتے ہیں باقی لوگ نہیں۔"

حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اکثر پاکستان کی جعلی شناختی دستاویزات کے ساتھ بھی اس سرحدی گزرگاہ کو استعمال کرتے رہے ہیں اور پاسپورٹ اور ویزے کی شرط سے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

پاکستان نے سرحد پر اپنی جانب کوائف کے اندراج کے قومی ادارے "نادرا" کا دفتر بھی قائم کر رکھا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاسپورٹ اور ویزے کی شرط نافذ ہونے سے قبل روزانہ تقریباً بیس سے پچیس ہزار افراد طورخم سرحد کے آر پار آتے تھے لیکن یہ تعداد حالیہ دنوں میں کم ہو کر لگ بھگ دو سے تین ہزار کے درمیان رہ گئی ہے۔