ایتھیوپیا تصادم میں 140 افراد ہلاک ہوئے: ہیومن رائٹس واچ

فائل

تمام اموات سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والے تصادم میں ہوئیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا منصوبہ دارلحکومت کے نواح میں رہنے والے لوگوں کی خودمختاری کو ختم کر دے گا

انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ ایتھوپیا کی ریاست ارومو میں کم از کم 140 افراد حکومت مخالف احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے ہیں۔

’ہیومن رائٹس واچ‘ نے جمعے کو بتایا کہ ایتھوپیا کی فورسز کے ہاتھوں 140 افراد کی ہلاکت اور بہت سے لوگوں کے زخمی ہونے کا یہ واقعہ 2005 کے انتخابات کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے بحران کی نشاندہی کر رہا ہے، جس کے دوران انسانی حقوق کی تنظیم کے نئے تخمینہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریبا دوگنی ہوگئی ہے۔

لیکن، نومبر سے جب سے اس احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے حکومت نے صرف پانچ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

’ہیومن رائٹس واچ‘ کے ترجمان فلکس ہورن نے جمعہ کو بتایا کہ ایتھوپیا کی فوج مظاہرین اور حزب مخالف کے سیاستدانوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہی ہے اور مظاہرین کے لئے پرامن انداز سے اپنی شکایات کے اظہار کے تمام راستے بند کر دئے ہیں۔ انھوں نے صوررتحال کو نہایت خطرناک قرار دیا، جو بقول ان کے، ایتھوپیا کو طویل عدم استحکام کے خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔

مظاہرین دارلحکومت ادیس ابابا کے باہر زرعی اراضی پر ایک نئے تجارتی زون کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ تمام ہلاکتیں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والے تصادم میں ہوئی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا منصوبہ دارلحکومت کے نواح میں رہنے والے لوگوں کی خودمختاری کو ختم کرکے رکھ دے گا۔

ساتھ ہی، حکومت کا مؤقف ہے کہ تجارتی زون کی تعمیر کا منصوبہ معیشت کے لئے نئی راہیں کھول دے گا جو سب کے لئے سودمند ہے۔

حزب مخالف کے گروپ کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی اکثریت ارومو کے ایک نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے طالب علموں اور کسانوں کی ہے جنھیں حکومت اورمو کے انتہاء پسند اور مسلح گروہ قرار دیتی ہے۔

اروموس ایتھوپیا کا سب سے بڑا نسلی گروپ ہے کہ جو ملکی آبادی کا 40 فیصد ہے۔