تارکین وطن کا معاملہ، یورپی یونین کے کمشنر کی پاکستان آمد متوقع

(فائل فوٹو)

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین نے کہا کہ معاشی حالات کے سبب اپنا ملک چھوڑنے والے تارکین وطن کے خلاف قواعد و ضوابط کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین دمیترس اوراموپالوس نے کہا ہے کہ وہ پاکستانی تارکین وطن کی اپنے ملک واپسی سے متعلق بات چیت کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جناب دمیترس نے یہ بات بدھ کو یونان میں کہی جہاں سے پہلی مرتبہ شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے 30 مہاجرین کو لکسمبرگ روانہ کیا گیا۔

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین نے کہا کہ طے شدہ ’کوٹے‘ کے مطابق مہاجرین کو یورپ کے ممالک میں رکھا جائے گا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ معاشی حالات کے سبب اپنا ملک چھوڑنے والے تارکین وطن کے خلاف قواعد و ضوابط کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق بہتر معاشی مستقبل کے لیے یورپ جانے والے تارکین وطن میں پاکستانی بھی شامل ہیں لیکن اُن کی تعداد واضح نہیں اور نا ہی یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین نے اس بارے میں کچھ بتایا۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین پاکستان کا کب دورہ کریں گے اور نا ہی پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے آیا ہے۔

اُدھر اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کی پولیس ’یوروپول‘ نے کہا کہ ہے اس نے سپین اور پولینڈ میں ایک جرائم پیشہ پاکستانی گروہ پر چھاپوں کے دوران 29 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس ’اے پی‘ کے مطابق اس گروہ پر الزام ہے کہ وہ پاکستانیوں کو یورپ اسمگل کرتا تھا اور انہیں کباب ریستورانوں میں غلاموں کی طرح کام پر مجبور کرتا تھا۔

یورپی یونین کی پولیس نے منگل کو اعلان کیا کہ سپین اور پولینڈ کی پولیس کے 365 اہلکاروں نے 24 اور 25 اکتوبر کو درجنوں ریستورانوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور شواہد اکٹھے کیے جس میں جعلی سفری دستاویزات بنانے کا سامان بھی شامل تھا۔

ہیگ میں یوروپول کے ہیڈکوارٹر میں انسداد سمگلنگ ٹیم نے اس آپریشن میں پولینڈ اور سپین کی پولیس کو مدد فراہم کی۔

یوروپول کا کہنا ہے کہ تارکین وطن نے یورپ آنے کے لیے اس گروہ کو 14,000 یورو فی مسافر ادا کیے تھے، اور شکستہ حال کشتیوں پر ترکی سے یونان یا لیبیا سے اٹلی سفر کر کے یورپ پہنچے تھے۔

یورپ پہنچنے کے بعد انہیں جعلی سفری دستاویزات اور سفری اخراجات پورے کرنے کے لیے ریستورانوں میں غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

یوروپول کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی معاوضہ نہیں ادا کیا جاتا اور نہ چھٹی یا دیگر سوشل سکیورٹی مراعات دی جاتیں اور ان سے برے حالات میں طویل گھنٹوں تک روزانہ کام کروایا جاتا۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ اس گروہ نے کتنے افراد کو سمگل کیا۔