'مرانڈا رائٹس' کی طرز پر فیصل آباد میں ملزمان پر پولیس تشدد کی ممانعت

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر فیصل آباد کی پولیس نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں زیرِ حراست ملزمان پر تشدد کی سختی سے ممانعت کر دی گئی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں 'مرانڈا' رائٹس کی طرز پر اصلاحات کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ تھانہ کلچر میں تبدیلی لائی جا سکے۔

فیصل آباد پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے ہدایت نامے کی کاپیاں شہر کی حدود میں آنے والے تمام تھانوں کو ارسال کر دی گئی ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا بھی انتباہ کیا گیا ہے۔

فیصل آباد پولیس کی جانب سے یہ مراسلہ ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے، جب حال ہی میں پولیس تشدد سے ایک زیرِ حراست ملزم کی ہلاکت پر پولیس کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سٹی پولیس چیف فیصل آباد عمر سعید کہتے ہیں کہ وہ ضلع بھر میں مرانڈا رائٹس کی طرز پر اصلاحات کی کوشش کر رہے ہیں جس سےپولیس کے رویے میں بہتری کے علاوہ عوام کا پولیس پر اعتماد بھی بحال ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمر سعید کا کہنا تھا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 14 کے تحت عزتِ نفس اور انسانی حقوق کی پامالی نہیں کی جا سکتی۔ آئین کے آرٹیکل 14 کی شق دو کے مطابق شواہد جمع کرنے کے لیے تشدد کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔

اُن کے بقول پولیس کا کام جدید تفتیشی طریقے استعمال کر کے تفتیش کو آگے بڑھانا ہے، نہ کے ملزم پر تشدد کرنا۔وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ایک خصوصی فارم تفتیشی افسران کے حوالے کیا جائے گا جس میں اس ہدایت نامے پر سختی سے عمل کرایا جائے گا۔

تفتیشی افسران ملزم کی گرفتاری کی وجہ تحریری طور پر اس فارم میں درج کریں گے جب کہ تفتیشی افسر ملزم پر تشدد نہ کرنے اور 24 گھنٹے میں اسے عدالت کے روبرو پیش کرنے کا پابند ہو گا۔


ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ترجمان فیصل آباد پولیس نوید احمد بتاتے ہیں کہ حال ہی میں فیصل آباد کے تھانہ سٹی جڑانوالہ اور تھانہ ٹھیکری والا کی حدود میں پولیس کا زیرحراست ملزمان پر تشدد ہوا۔ دونوں الگ الگ واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تھانہ سٹی جڑانوالہ کی حدود میں پولیس کے ایک نجی ٹارچر سیل کا انکشاف ہوا۔

اُن کے بقول فیصل آبادپولیس نےسخت کارروائی کرتے ہوئے دونوں واقعات میں ملوث ایک ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس افسران کو ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔ ملازمت سے برخاست ہونے والوں میں دو سب انسپکٹر، ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبل شامل ہیں۔ اِسی طرح ایک حوالدار کی تنزلی کر کے اُسے کانسٹیبل بنا دیا گیا ہے۔

مرانڈا رائٹس کیا ہیں؟

امریکہ میں رائج مرانڈا رائٹس کے تحت ملزم کو دورانِ حراست پولیس تفتیش کے دوران خاموش رہنے کا آپشن بھی دیا جاتا ہے جسے 'مرانڈا' وارننگ بھی کہا جاتا ہے۔ تفتیش سے قبل ملزم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ پولیس کو جو بھی بیان دے گا، وہ عدالت میں اس کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ ملزم کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اسے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق ہے۔

امریکہ میں یہ رائٹس سن 1966 میں 'مرانڈا بنام ایریزونا' کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نافذ کیے گئے تھے۔ 24 سالہ مرانڈا پر یہ الزام تھا کہ اس نے 1963 میں ریاست ایریزونا کے شہر فینکس میں ایک 18 سالہ لڑکی کو اغوا کیا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے دوران اس کے ساتھ لوٹ مار کی۔ تاہم پولیس کی زیرِ حراست دو گھنٹوں کی تفتیش کے دوران مرانڈا نے اعتراف جرم کر لیا۔

اس کیس میں پولیس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے مرانڈا کو اس کے قانونی حقوق سے متعلق آگاہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ وکیل کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ گیا جس کے بعد 1966 میں 'مرانڈا' رائٹس متعارف کرائے گئے تھے۔

قانونی ماہرین کی رائے

قانونی ماہرین فیصل آباد پولیس کے اس اقدام کو قابلِ تحسین قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس اقدام سے نہ صرف ملزم کے حقوق کا تحفظ ہو گا، بلکہ پراسیکیوشن میں بھی مدد ملے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل ہائی کورٹ میاں علی اشفاق کہتے ہیں کہ اس ضابطے کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک پھیلانے کی بھی ضرورت ہے کیوں کہ پورےملک میں پولیس تشدد کی شکایات عام ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اِن قواعد و ضوابط کے تحت کوئی بھی گرفتار شدہ ملزم اپنے گھر والوں کو اطلاع دے سکے گا۔ اُسے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے تو اُس کے لیے بھی کسی وکیل کی خدمات حاصل کر سکے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دورانِ تفتیش کوئی بھی شخص جسمانی ریمانڈ یا راہداری ریمانڈ پر رہتا ہے تو اُس کی رپورٹ کو باقاعدہ مرتب کیا جائے گا۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اِس سے کریمنل جسٹس سسٹم اور پراسیکیوشن میں شفافیت آنا شروع ہو جائے گی۔ اگر کسی ملزم کے ساتھ کہیں پولیس والے نے زیادتی کی کوشش کی ہے تو وہ سامنے آئے گی۔

سٹی پولیس چیف عمر سعید کہتے ہیں کہ پولیس کے پاس موبائل ڈیٹا، فنگر پرنٹس، ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ کے ذریعے شواہد جمع کرنے کے طریقے موجود ہیں، لہذٰا ملزم پر تشدد پر انحصار کی روک تھام ضروری ہے۔ لہذٰا اب جو ایسا کرے گا وہ فیصل آباد پولیس کا حصہ نہیں رہے گا۔