بجنور میں احمد فراز کی شاعری پر قومی سیمینار

احمد فراز اپنے انتقال سے چند روز قبل

اترپردیش کے ضلع بجنور کی اپنی تاریخ ہے۔ اس سرز مین سے قائم چاند پوری، علامہ تاجور نجیب آبادی، ڈپٹی نذیر احمد، ڈاکٹر عبد الرحمن بجنوری، قرة العین حیدر اور اختر الایمان جیسی شخصیتیں پیدا ہو ئی تھیں جنہوں نے اردو ادب پر اپنے نمایاں نقوش ثبت کیے۔ اسی سر زمین پر وہاں کی ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم نے حکومت ہند کے ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے احمد فراز کی شاعری پر قومی سیمینار کا انعقاد کیا۔ جس میں بھارت میں پاکستان ہائی کمیشن کے منسٹر پریس شاہ زماں خان نے بھی بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی۔

سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے اتر پردیش اردو اکادمی کی چیر پرسن محترمہ ترنم عقیل نے کہا کہ فراز کسی ایک ملک کے شاعر نہیں تھے بلکہ انہیں اردو کے سفیر کی حیثیت حاصل تھی۔ دنیا میں کہیں بھی جن کو اردو سے ذرا بھی واقفیت حاصل ہے، وہ فراز کے نام سے واقفیت رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جدید شعرا میں احمد فراز کا نام کئی اعتبار سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو احمد فراز کی شاعری کا بنیادی آہنگ رومانی تھا لیکن وہ رجز کے بھی شاعر تھے۔ انہوں نے ظلم و جبر کے خلاف اپنے قلم سے مسلسل جہاد کیا اور ساری دنیا کو امن محبت اور اخوت کا پیغام دیا۔ وہ بنیادی طور پر امن کے پیغام بر تھے، اس لیے ان کی خدمت میں سب سے بڑا نذرانہٴ عقیدت یہی ہو گا کہ ہم اپنے طور پر امن اور محبت کے پیغام کو عام کریں اور کوشش کریں کہ اردو کی ترویج و اشاعت ہر سطح پر ہو، کیونکہ احمد فراز نے بھی اس زبان کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔

پاکستانی ہائی کمیشن کے منسٹر پریس شاہ زماں خان نے ضلع بجنور میں احمد فراز پر قومی سطح کا سیمینار منعقد کرنے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ احمد فراز کی شاعری نے بیک وقت نو عمری کے جذبوں اور پختہ افکار دونوں کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا۔ جس کی وجہ سے انہیں بر صغیر کے تمام اہل اردو میں ایسی مقبولیت حاصل ہوئی جس کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ احمد فراز بھارت کی دیگر زبانوں میں بھی اتنے ہی مقبول اور محترم ہیں جتنے کہ اردو کے لیے۔ ان کی شاعری میں عام انسانوں کی زندگی کے مسائل اور عام جذبوں کو چھونے کی غیر معمولی صلاحیت تھی اور یہی ان کی غیر معمولی مقبولیت کا راز ہے:

اے دل ترے سکوں سے تری رونق گئیں
دریا کا سارا حسن ہی طغیانیوں میں تھا


روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی کی ڈاکٹر قمر قدیر ارم نے کہا دنیا بھرمیں جہاں کہیں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں کے اہل ذوق کے دلوں میں احمد فراز سمائے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں احمد فراز سب سے مقبول شاعر تھے:

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو کب انصاف کرو گے

ڈاکٹر افشاں ملک نے اپنے مقالے میں فراز کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی اس آشوب سے گزرتا ہے، لیکن احمد فراز حقیقت پسند شاعر ہیں۔ وہ جب بھی کوئی بات کہتے ہیں دل میں گھر کر جاتی ہے اور لوگوں کو بھلی معلوم ہو تی ہے کیونکہ وہ ان کے کہنے کا اپنا انداز ہے:

نہ تو خدا نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

ڈاکٹر شیبا فریدی نے اپنے مقالے میں احمد فراز کے تغزل کو ایک نئی روایت سے تعبیر کیا۔ بلکہ یہ کہا کہ وہ ایک نئی نفسیات کی ترتیب و تدوین بھی کرتے ہیں، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد فراز تغزل کی ایک نئی زبان کے موجد ہیں:


سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کر دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہا ر پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں


ڈاکٹر عبد الحق انجم نے اپنے مقالے میں کہا احمد فراز اپنے ملک کے ہی سیاسی حالات سے متاثر نہیں تھے بلکہ دنیا میں جہاں کہیں امریت نے عام انسانوں کو اپنے ظلم و ستم کا شکار بنایا، احمد فراز تڑپ اٹھے انہوں نے ظلم و ستم اور جبرو استبداد کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔

ڈاکٹر نجابت رضوی نے اپنے مقالے میں کہا احمد فراز ایران اور ہندوستانی جمالیات کے امتزاجی الہام کے نغمہ گر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ حالات حاضرہ پر بھی خوب نشتر چبھوتے ہیں:

امیر شہر غریبو ں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہٴ مذہب کہیں بنام وطن
خدا کا نام جہاں لوگ بیچتے ہیں فراز
بصد وثوق وہاں کاروبار چلتے ہیں

ڈاکٹر ملکہ نظامی نے اپنے مقالہ میں کہا احمد فراز نے سیاسی اور عشقیہ علامتوں کو یکجا کر کے ایسے پہلوﺅں کا اضافہ کیا جن میں ایک طرف دبے کچلے لوگوں کے انسانی وقار کو بحال کرنے کی خواہش نمایاں تھی تو دوسری طرف انسانی جذبوں کو ان کے مختلف رنگوں میں پوری شدت کے محسوس کرنے کی صلاحیت موج زن تھی۔ انہوں نے فراز کی نظموں ’نئی سماعت کا عہد نامہ‘ ’ہم اپنے خواب کیوں بیچیں‘، ’اے میرے سارے لوگو‘، ’محاصرہ‘ اور ’مت قتل کرو آوازوں کو‘ کا تجزیہ بھی پیش کیا۔

محترمہ سلمیٰ انصاری نے کہا کہ فراز نے اقبال کے دبستانِِ سخن سے ذات میں کائنات اور کائنات میں ذات کے عرفان کا سلیقہ سیکھا ہے۔ فراز نے اقبال کی کائنات سخن کی سیر ایک مخلص اور خود رفتہ سالک کی حیثیت سے کی ہے ان کا یہ سفر سلوک کا سفر تھا جس کے زیر اثر فراز کی شاعری جینے کا سلیقہ اور مرنے کا قرینہ سکھاتی ہے۔

ڈاکٹر محمد احمد دانش نے کہا احمد فراز کے یہاں جمالیاتی حسن کے ساتھ ساتھ انقلابی آہنگ بھی تھا۔ مشرق و مغرب کی دنیا کے ہر علاقہ میں ان کے مداح اور ان کی شاعری کے شائقین موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احمد فراز کے بہت سے ایسے اشعار ہیں جو بہت آسانی سے زبان زد ہو جاتے ہیں۔