واٹرگیٹ: 40 برس بعد بھی نکسن کا استعفیٰ سوالیہ نشان

’ میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میرے احساسات، میرے تن بدن میں اس بات کا دکھ ہے کہ بغیر میعاد پوری کیے، میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن، صدر کی حیثیت سے، مجھ پر لازم ہے کہ میں امریکہ کے مفادات کو اولیت دوں‘

چالیس برس قبل، 8 اگست 1974ء میں، رچرڈ نکسن پہلے امریکی تھے جنھوں نے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

اُن کی رخصت کا باعث واٹرگیٹ اسکینڈل اور اُس کی پردہ پوشی بنا۔

یہ معاملہ اُس وقت شروع ہوا جب ریپبلیکن صدارتی مہم کے کارندے جون 1972ء میں واشنگٹن میں واقع ڈیموکریٹک پارٹی ہیڈکوارٹز کے دفتر کےاندر گھس گئے۔

یہ ایسا اسکینڈل تھا جس کےقومی سیاست میں وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے، جب کہ اس کے نتیجے میں وضع کی گئی اصلاحات کا آج تک ذکر کیا جاتا ہے۔

تاہم، 8 اگست کی رات تک اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا، جب وائٹ ہاؤس میں یہ دھماکہ خیز سیاسی ڈرامہ رچایا جا رہا تھا، جس کے نتیجے میں دوسرے ہی روز نکسن نے خیرباد کہا، اور یوں، وائٹ ہاؤس کے لان میں کھڑے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر جانا پڑا۔

اُسی رات، اوول دفتر سے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے آکر اُنھوں نے اعلان کیا کہ وہ اگلے دِن مستعفی ہو جائیں گے۔

اُن کے بقول، میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میرے احساسات، میرے تن بدن میں اس بات کا دکھ ہے کہ بغیر میعاد پوری کیے، میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن، صدر کی حیثیت سے، مجھ پر لازم ہے کہ میں امریکہ کے مفادات کو اولیت دوں۔

اگلی صبح، وائٹ ہاؤس عملے کے سامنے جذبات سے پُر اپنے کلمات میں، نکسن نے اُس بات کا ذکر کیا جو اُن کی سیاسی شکست کا پیش خیمہ بنا، جب کہ اس بات کی ابھی تک وضاحت ہونا باقی ہے آیا وہ جو کچھ کہہ رہے تھے، اُنھیں واقعی پتا تھا کہ وہ کیا فرما رہے ہیں۔

اُن کے الفاظ: ’ہمیشہ یاد رکھو، دوسرے لوگ آپ سے نفرت کر سکتے ہیں۔ لیکن، جو آپ سے نفرت کرے گا، آپ اُس سے تب تک نہیں جیت سکتے، جب تک آپ خود بھی اُن سے نفرت نہ کرنے لگو۔ اور یوں، آپ اپنے آپ کو برباد کردیتے ہو‘۔

کالی رات کٹ گئی

اس کے فوری بعد، نئے صدر، جیرالڈ فورڈ نے قوم کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی، جس نے تاریخ میں پہلی بار ایک صدر کو مستعفی ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔

الفاظ بہت سادہ تھے، لیکن اُن میں بلاغت کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی تھی۔ اور، یہ لازوال امریکی جمہوریت کے لیے ایک خراج تحسین کا درجہ رکھتے تھے۔

اُن کے بقول، ’میرے ہم وطنو، ہماری طویل آزمائش کا انتظار ختم ہوا۔ ہمارا آئین کام کر رہا ہے۔ ہمارے عظیم جمہوریہ کی اساس قوانین پر مشتمل حکمرانی ہے، فرد نہیں۔ یہاں عوام کی حکمرانی ہے‘۔

نکسن کے کئی مشیر واٹرگیٹ اسکینڈل کے دوران اپنے کیے اور اختیارات کے تجاوز کی بنا پر قید ہوئے۔

وائٹ ہاؤس کی ٹیپ ریکارڈنگز سے اسکینڈل کی پردہ پوشی اُس وقت عیاں ہوئی جب واٹرگیٹ کی چھان بین میں روڑے اٹکانے کے لیے مشیروں سے سی آئی اے کو ایف بی آئی کے سامنے غلط بیانی سے کام لینے کے احکامات دیے گئے۔


بعدازاں، فورڈ نے نکسن کو اسکینڈل میں ملوث ہونے کے جرم سے معافی دے دی، جس اقدام کے باعث وہ 1976ء کا صدارتی انتخاب ہار گئے، جسے ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے، جِمی کارٹر نے جیتا۔

ایک تاریخ ساز لمحہ

ایلن لِشمن ’امریکن یونیورسٹی‘ میں صدارتی تاریخداں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ واٹرگیٹ اسکینڈل امریکی سیاسی تاریخ کے ایک اہم موڑ کا درجہ رکھتا ہے۔

اِس کی وضاحت کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ، ’واٹرگیٹ انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ اب تک، ایک صدر اور اُن کی انتظامیہ کی طرف سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے والی اہم مربوط کوشش گردانی جاتی ہے۔

واٹرگیٹ اسکینڈل دو برسوں پر محیط معاملہ تھا، جسے سب سے پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نامہ نگار، باب وڈورڈ اور کارل برنس ٹائن نے ڈھونڈ نکالا اور شائع کیا۔

لِشمن کے بقول، صحافیوں کی طرف سے واٹرگیٹ سے پردہ اٹھانا اور صدر کی پردہ پوشی، ایک خاصا اہم معاملہ تھا۔

کانگریس کی اصلاحات


’واٹرگیٹ اسکینڈل‘ کے باعث، صدارتی انتخاباتی مہم کے لیےکانگریس کو چندہ جمع کرنے کے نظام میں اصلاحات کی قانون سازی کرنا پڑی، حالانکہ حالیہ دِنوںٕ کے دوران عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے نتیجے میں چند اصلاحات کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔

واٹرگیٹ کے باعث، ایک نئے اور زیادہ منقسم سیاسی دور نے جنم لیا، جو حالیہ برسوں میں مزید الجھن کا شکار ہوا۔

سنہ 1974میں صدر فورڈ کی طرف سے رچرڈ نکسن کو معافی دیے جانے کے فیصلے کو 59 فی صد امریکیوں نے ناپسند کیا تھا۔ لیکن، 2002ء میں کرائے گئے ’اے بی سی نیوز‘ کے رائے عامہ کے ایک جائزے سے پتا چلا کہ اب کے، 59 فی صد لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ فورڈ نے درست اقدام کیا، اور یہ کہ معافی نامے کی بنا پر ہی ملک متحد ہوا، جو اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی اسکینڈل کے نتیجے میں تقسیم کا شکار تھا۔