کراچی میں تین روزہ 'لٹریچر فیسٹول' کا آغاز

اتوار تک جاری رہنے والے 'کراچی لٹریچر فیسٹول' میں 130 کے لگ بھگ نشستیں ہوں گی جن میں مختلف زبانوں کے 200 سے زائد ادیب، صحافی، شاعر اور مصنف شرکت کر رہے ہیں۔
کراچی میں چوتھے سالانہ جشنِ ادب ('کراچی لٹریچر فیسٹول') کا آغاز ہوگیا ہے جو تین روز جاری رہے گا۔

ساحلِ سمندر پر واقع 'بیچ لگژری ہوٹل' میں ہونے والے اس ادبی میلے کے پہلے روز مختلف موضوعات پر 30 کے لگ بھگ نشستیں، مذاکرے اور دیگر پروگرامات ہوئے جن میں اندرونِ و بیرونِ ملک سے آئے ہوئے ادیبوں، صحافیوں، شائقین، طلبہ و طالبات اور فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کے شریک بانی اور معروف نقاد ڈاکٹر آصف فرخی نے بتایا کہ انہوں نے دنیا کے دیگر ممالک اور ہندوستان میں ہونے والے ادبی میلوں سے متاثر ہو کر چار سال قبل اس میلے کی بنیاد ڈالی تھی اور اب یہ شہر کی نمایاں ترین ادبی اور ثقافتی سرگرمی بن گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں ہر وقت کسی گڑبڑ اور حالات کی خرابی کا اندیشہ رہتا ہے وہاں اس نوعیت کے ادبی میلے کی اہمیت اورمعنویت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ان کے بقول"لٹریچر ہی مسائل اور مشکلات میں جینا سکھاتا اور مقابلے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔

ڈاکٹر فرخی کا کہنا تھا کہ زندگی، اس کا حسن، اس کی نزاکت اور لطافت ادب ہی کے ذریعے ملتی ہے اور کراچی میں خراب حالات کے باوجود بھی زندگی کا یہ حسن کم نہیں ہوا۔

افتتاحی تقریب سے پاکستانی نژاد برطانوی ناول نگار ندیم اسلم خطاب کر رہے ہیں

اتوار تک جاری رہنے والے 'کراچی جشنِ ادب' میں 130 کے لگ بھگ نشستیں ہوں گی جن میں مختلف زبانوں کے 200 سے زائد ادیب، صحافی، شاعر، مصنفین شرکت کر رہے ہیں۔

میلے میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، روس، بھارت، نیپال، بھوٹان، چین کے علاقے تبت اور فلسطین سے بھی 40 سے زائد ادیب اور مصنفین کراچی پہنچے ہیں۔

'فیسٹول' میں کتب میلہ بھی لگایا گیا ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ 'چلڈرن لٹریچر فیسٹول' بھی منعقد کیا جارہا ہے جس میں بچوں کے لیے لکھنے والے مصنفین کی گفتگو اور ان کی تحریروں کے مطالعے کے علاوہ 'کریٹو رائٹنگ' کی ورکشاپس، مقابلے، تھیٹر اور پتلی تماشے ہوں گے۔

میلے کے پہلے روز چار کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی جن میں پاکستان کے معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی کی زندگیوں پر اطالوی زبان میں لکھی جانے والی کتاب، جواں عمری میں انتقال کرجانے والے سندھی کے شاعر حسن درس کا شعری مجموعہ، معروف ماہرِ طبیعات پرویز ہود بھائے کی مرتب کردہ 'کنفرنٹنگ دی بومب: پاکستانی اینڈ انڈین سائنسٹسٹس اسپیک آئوٹ'، اور فرانسیسی محقق لوراں گیئر کی 'مسلمز ان انڈین سٹیز: ٹریجکٹریز آف مارجنلائزیشن' شامل ہیں۔

قبل ازیں جمعے کی صبح چوتھے 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس کے مرکزی مقرر اردو کے نامور افسانہ نویس انتظار حسین اور برطانیہ سے آنے والے انگریزی کے پاکستانی نژاد ناول نگار ندیم اسلم تھے۔

میلے کی افتتاحی تقریب میں معروف بھارتی شاعر گلزار کو بھی شریک ہونا تھا لیکن وہ دو روز قبل اپنا دورہ پاکستان مختصر کرکے لاہور سے ہی وطن واپس لوٹ گئے تھے۔

میلے کے پہلے روز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی زندگی پر اطالوی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب کی رونمائی بھی ہوئی


تقریب سے خطاب میں میلے کی منتظمہ اور شریک بانی امینہ سید کا کہنا تھا کہ اس سرگرمی کا مقصد کراچی میں مطالعے کو پروان چڑھا کر رواداری کو فروغ دینا ہے۔

امینہ نے کہا کہ 2010ء میں ہونے والے پہلے 'کراچی لٹریچر فیسٹول ' میں 37 مصنفین شریک تھے جنہیں سننے کے لیے چند سو شائقینِ ادب آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چار برسوں میں یہ میلہ انتہائی مقبول ہوا ہے اور اس برس اندرونِ و بیرونِ ملک سے 211 مصنفین میلے میں شریک ہیں جب کہ تین روز کے دوران میں 20 ہزار افراد کی آمد متوقع ہے۔

امینہ نے امید ظاہر کی کہ موسمِ بہار کے آغاز میں ہونے والے اس بین الاقوامی ادبی میلے کےنتیجے میں شہر میں بھی امن اور آسودگی کی بہار آئے گی۔

افتتاحی تقریب سے پاکستان میں تعینات فرانس، جرمنی اور اٹلی کے سفیروں اور روس کے قونصل جنرل نے بھی خطاب کیا اور میلے کو "پاکستانی ادب و ثقافت کا عمدہ اظہار" اور "کراچی شہر کا اصل چہرہ" قرار دیا۔