امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی بھی جاسوسی کی، جرمن اخبار

فائل

جریدے کے مطابق امریکی خفیہ ادارے نے 'ویڈیو کانفرنسنگ' کے نظام میں نقب لگا کر صرف تین ہفتوں کے دوران میں اقوامِ متحدہ کے 458 دستاویزات حاصل کی تھیں۔
جرمنی کے ایک معروف جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں اقوامِ متحدہ کی جاسوسی کرتی رہی ہیں۔

جرمن جریدے 'دار اسپیجل' نے اپنی اتوار کی اشاعت میں کہا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' نے 2012ء میں اقوامِ متحدہ کے 'ویڈیو کانفرنس سسٹم' میں نقب لگا کر عالمی ادارے کی جاسوسی کی تھی۔

'دار اسپیجل' نے 'این ایس اے' کی بعض دستاویزات حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں ، جریدے کے مطابق، اقوامِ متحدہ کے داخلی 'ویڈیو کانفرنسنگ' کے نظام میں نقب لگانے کا ذکر ہے۔

جریدے کے مطابق امریکی خفیہ ادارے نے 'ویڈیو کانفرنسنگ' کے نظام میں نقب لگا کر صرف تین ہفتوں کے دوران میں اقوامِ متحدہ کے 458 دستاویزات حاصل کی تھیں۔

'دار اسپیجل' نے کہا ہے کہ اسے ملنے والی 'این ایس اے' کی دستاویزات میں امریکی خفیہ ادارے کے حکام نے ایجنسی کے اہلکاروں پر زور دیا ہے کہ وہ مختلف ممالک کے سفارت اور قونصل خانوں میں نصب جاسوسی کے آلات کو "ہر قیمت پر" خفیہ رکھنے کا انتظام کریں کیوں کہ ان کا نکشاف ہونے سے متاثرہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو "شدید نقصان" پہنچ سکتا ہے۔

جرمن جریدے کی اس رپورٹ پر امریکہ نے تاحال کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

'دار اسپیجل' نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کو چین کے خفیہ اداروں کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی جاسوسی کرنے کی کوششوں کا بھی علم ہوا تھا۔

گو کہ 'دار اسپیجل' نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا کہ اسے امریکی انٹیلی جنس ادارے کی دستاویزات کیسے اور کب ملیں لیکن گمان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حالیہ رپورٹ کی بنیاد بننے والی دستاویزات بھی مبینہ طور پر 'این ایس اے' کےسابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن ہی نے جریدے کو فراہم کی تھیں۔

اس سے قبل جون میں 'دار اسپیجل' نے سنوڈن سے ملنے والی دستاویزات کی بنیاد پر یہ انکشاف کرکے یورپی ممالک اور امریکہ کے درمیان ایک سفارتی تنازع پیدا کردیا تھا کہ امریکی خفیہ اداروں نے یورپی یونین کے واشنگٹن، برسلز اور اقوامِ متحدہ میں قائم دفاتر میں جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہیں۔

اپنی اس رپورٹ میں جرمن جریدے نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی خفیہ ادارے 'این ایس اے' کو یورپی یونین کے کمپیوٹرز تک بھی رسائی حاصل ہے جس کے ذریعے وہ یونین کے حکام کی ٹیلی فون کالوں، ای میلز اور دیگر دستاویزات کی نگرانی کر رہا ہے۔

جریدے کی اس رپورٹ کے بعد کئی یورپی ممالک نے امریکہ سے ان الزامات کی وضاحت مانگی تھی جس کے بعد خود امریکی صدر براک اوباما اور ان کی انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدیداران کو یورپی سربراہانِ مملکت اور دیگر حکام کو صفائیاں پیش کرنا پڑی تھیں۔

خیال رہے کہ 'این ایس اے' کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے جون میں امریکہ سے فرار ہونے کے بعد اپنے سابق ادارے کی کئی انتہائی اہم خفیہ دستاویزات 'دار اسپیجل' سمیت مختلف غیر ملکی اخبارات کو فراہم کردی تھیں جن کی بنیاد پر رپورٹوں کی اشاعت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

سنوڈن جاسوسی، سرکاری املاک کی چوری اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں اپنے آبائی وطن امریکہ کو مطلوب ہیں اور اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے ان دنوں روس میں پناہ گزین ہیں۔