مغل پورہ، لاہور میں مغل دور کی اشرافیہ کا مسکن

مغل پورہ کے قریب تاریخی شالامار باغ کے قریب جی ٹی روڈ پر بُدھو کا مقبرہ بھی لاہور کے تاریخی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔

تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ بدھو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں کمہار تھا اور شالامار باغ کی تعمیر کے دوران لاکھوں اینٹوں کی طلب پوری کرنے میں اس نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے بعد اسے شاہی کمہار کے طور پر پہچان ملی۔

تعمیرات کے دلدادہ شاہ جہاں نے اسے اینٹوں کا بادشاہ قرار دے رکھا تھا۔ وسیع باغ میں بنایا گیا یہ مقبرہ اب ورکشاپس میں گھرا ہوا ہے۔

اس مقبرے کا بنیادی ڈھانچہ پانچ فٹ کے چوکور چبوترے پر بنایا گیا ہے جس کے عین وسط میں جائے مدفن ہے اور اس مرکزی کمرے کے چاروں جانب دروازے موجود ہیں۔

مغل پورہ لاریکس کالونی سے باہر نہر کی جانب سفر کریں تو ریلوے لائن کے پاس ایک مقبرہ دکھائی دیتا ہے جو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت میں لاہور کے صوبے دار رہنے والے خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا ہے۔

مقبرے کی بحالی اور تزئین و آرائش کا کام ان دنوں جاری ہے۔ اس سے پہلے 2018 میں شروع ہونے والا بحالی کا کام فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث رُک گیا تھا۔ خان جہاں کا اصل نام میر ملک حسین تھا جب کہ بہادر خان، خان جہاں اور کوکلتاش اُن کے القابات تھے۔ اُنہیں 22 بڑی جنگوں میں کامیابی حاصل کرنے کی بنیاد پر 1675 میں  ظفر جنگ کا خطاب ملا۔

 مقبرہ سڑک کی زمینی سطح سے اُونچائی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ زمانے کی سختیاں برداشت کرنے والے خان جنگ بہادر کوکلتاش کی قبر کو دوبارہ بنایا گیا ہے۔

انتظامیہ کے مطابق دیگر تاریخی عمارتوں کی طرح اس مقبرے پر بھی مجاروں نے قبضے کی کوشش کی اور نشے کے عادی افراد نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

مغل پورہ کے قریب جی ٹی روڈ پر بیگم پورہ کی آبادی کی طرف جائیں تو ایک گلی میں سرو والا مقبرہ بھی محکمۂ آثار قدیمہ کی محفوظ فہرست میں شامل ہے۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کے عہد کے گورنر لاہور نواب ذکریا کی بہن شرف النسا بیگم کا ہے۔ 1735 سے 1740 کے درمیان تعمیر ہونے والا یہ مقبرہ مغلیہ عہد کی آخری تعمیرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ شرف النسا بیگم نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے یہاں تشریف لاتیں اور پردے کا خاص خیال رکھتے ہوئے اُنہوں نے یہ 22 فٹ بلند مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروایا تھا جہاں سیڑھیاں رکھ کر ہی جایا جا سکتا تھا۔

انتقال کے بعد اُن کے زیر استعمال قرآن اور تلوار بھی اسی مقبرے کی بالائی منزل میں محفوظ کر دیے گئے۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق بیگم شرف النسا کی وصیت کے مطابق اُن کی قبر تک رسائی کے لیے سیڑھیاں نہیں بنائی گئیں تاکہ اُن کی قبر کوئی غیر محرم نہ دیکھ سکے۔