افریقی فوجیوں پر صومالی خواتین کے استحصال کا الزام

فائل

اقوامِ متحدہ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران صرف موغادیشو میں جنسی اور صنفی تشدد کے 800 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی تنظیم نے الزام عائد کیا ہے کہ خانہ جنگی کا شکار صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے فوجی مقامی خواتین کے جنسی استحصال میں ملوث ہیں۔

'ہیومن رائٹس واچ' نے پیر کو اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 'افریقی یونین مشن ٹو صومالیہ (اے ایم آئی ایس او ایم)' کے فوجیوں پر اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے صومالی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں 21 ایسے واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افریقی فوجیوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ بیشتر خواتین اپنے ساتھ ہونےو الی بد سلوکی کو منظرِ عام پر لانے سے ہچکچاتی ہیں اور خاموشی ہی میں عافیت جانتی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح افریقی یونین کے فوجی علاج اور مدد کے حصول کے لیے اپنے کیمپوں میں آنے والی خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے جنسی استحصال کے مرتکب ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق صومالیہ کے دارالحکومت موغا دیشو میں تعینات یوگینڈا اور برونڈی سے تعلق رکھنے والے بعض فوجی اہلکار گزشتہ ایک سال سے اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے صومالی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی سمیت کئی دیگر جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔

'ہیومن رائٹس واچ' کے مطابق یہ فوجی اہلکار دارالحکومت میں قائم اپنے دو فوجی اڈوں پر مدد کے حصول کے لیے آنےو الی خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے علاوہ انہیں خوراک اور دیگر امداد کی فراہمی کے لیے جنسی تعلق قائم کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔

صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے فوجی دستے وہاں شدت پسند تنظیم 'الشباب' کے مقابلے میں صومالی فوج کی مدد کے لیے تعینات ہیں جنہوں نے گزشتہ کچھ برسوں میں 'الشباب' کے خلاف قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

مختلف افریقی ملکوں سے تعلق رکھنے والے ان فوجی دستوں نے شدت پسند تنظیم کو دارالحکومت موغادیشو کے علاوہ ملک کے جنوبی اور وسطی علاقوں سے نکال باہر کیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں صومالی باشندوں کو خوف کی زندگی سے نجات ملی ہے۔

لیکن 'ہیومن رائٹس واچ' کے مطابق ان میں سے بعض فوجی صومالی خواتین کے جنسی استحصال اور ان پر تشدد جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہیں اور اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران صرف موغادیشو میں جنسی اور صنفی تشدد کے 800 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ ایسے بہت سے واقعات معاشرے، اسلام پسند جنگجووں اور ذمہ داروں کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خوف کے باعث سامنے ہی نہیں آتے ہیں۔

'ہیومن رائٹس واچ' نے اپنی رپورٹ میں افریقی یونین کے فوجی افسران، اقوامِ متحدہ اور صومالی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایسے اقدامات کرے جن سے خواتین اور بچیوں کے استحصال کا راستہ روکا جاسکے۔

صومالیہ کے لیے افریقی یونین کے فوجی مشن کے ایک ترجمان نے رپورٹ میں بیان کیے جانے والے واقعات کی مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعلان کیا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بعض افریقی فوجی اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن پوری فورس کے ان جرائم میں ملوث ہونے کا تاثر درست نہیں۔