بابری مسجد ، مندر تنازع : ایک بار پھرالتواء کا شکار

بابری مسجد۔ رام مندر کی متنازع جگہ۔ فائل فوٹو

بابری مسجد بنام رام جنم بھومی کا اٹھارہ سال سے چلنے والا مقدمہ ایک مرتبہ پھر عدالتی فائلوں سے باہر آنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ عدالت نے فیصلے کو مزید ایک ہفتے کے لئے آگے بڑھا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی بینچ کے ایک جج جسٹس دھرم ویر سنہا یکم اکتوبر کو ریٹائرہورہے ہیں۔ اب ان کی جگہ جو جج مقرر ہوگا وہ نئے سرے سے فیصلے کو دیکھنے کے بعد ہی اپنا فیصلہ دے سکے گا۔

بظاہریہ معاملہ ایک ہفتے کے لئے ٹلا ہے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ طول پکڑے گا کیوں کہ آنے والا نیا جج اتنے پرانے مقدمے پر راتوں رات فیصلہ نہیں دے سکتا۔ یوں بھی اس فیصلے کو لے کر بھارت بھر میں خاصے خدشات اور خوف تھا ۔1992ء میں مسجد کے منہدم ہونے پر ہندو مسلم فسادات نے بھارت میں ہی جنم نہیں لیا تھا بلکہ پاکستان میں بھی اس کا خاصہ رد عمل دیکھنے کو ملا اور یہاں آب ہندووٴں کے مندروں اور عبادت گاہوں کو مشتعل افراد کے ہاتھوں نقصان پہنچا ۔ دیگر مسلم ممالک کی طرف سے بھی اس وقت کی بھارتی حکومت کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یوں یہ معاملہ صرف بھارت تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دنیا بھر میں اس پر سخت رد عمل نظر آیا۔

فیصلے کو لے کر بھارت میں ہر طرف خوف کا ماحول تھا ۔ اس خوف کی وجہ اس مقدمے کی حساسیت ہے۔۔۔اور حساسیت کو پوری طرح سمجھنے کے لئے بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازع پر تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے۔

بابری مسجد 1528 میں مغلوں کے پہلے بادشاہ ظہیر الدین بابر کے دور میں فیض آباد کے گورنر میر باقی نے ایودھیا میں تعمیر کرائی تھی ۔ بادشاہ کی خوشنودی کے لئے ان کا نام بابری مسجد رکھا ۔ ہندوں کا کہنا ہے کہ رام جنم بھومی پر تعمیر قدیمی مندر کو توڑ کر یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی جبکہ مسلمان اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اسلام میں ناجائز قبضہ پر مسجد تعمیر نہیں کی جاتی ۔

بابری مسجد ، مندر تنازع : ایک بار پھرالتواء کا شکار

1855 میں اس مسئلے پر ہندو ، مسلم تصادم ہوا جس میں کچھ لوگوں کی جانیں بھی گئیں۔ پھر 1857 میں ایک ہندو پجاری نے بابری مسجد کے صحن میں ایک چبوترا بنوایا اور وہاں پوجا شروع کر دی ۔ 1859 میں انگریز سرکار نے دونوں جگہ یعنی نمازیوں کے راستے اورپوجا کے چبوترے کے درمیان ایک دیوار بنا دی ۔ اس چبوترے پر بھجن وکیرتن کرنے والے رگھو بیر داس نام کے ایک مہنت نے دسمبر 1885 میں فیض آباد کے سب جج کی عدالت میں ایک رٹ داخل کی جس میں عدالت سے گزارش کی کہ مسجد کے سامنے والا چبوترا جس کی لمبائی 21 فٹ ،چوڑائی 17 فٹ ہے ، کھلا ہے ۔ پوجا کرنے والوں کوسخت موسموں میں بہت پریشانی ہوتی ہے لہذا اس چبوترے پر مندر بنانے کی اجازت دی جائے ۔

تاہم عدالت نے 24 دسمبر 1885 کو یہ درست خارج کر دی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ مسجد کے سامنے مندر بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس سے دونوں مذاہب کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کی گئی مگر یہ اپیل بھی26 مارچ 1886 کو خارج کر دی گئی ۔

1934 میں فسادات کے دوران ہندوؤں نے بابری مسجد کی دیوار اور گنبد کو نقصان پہنچایا جس کی بعد میں مرمت بھی کر دی گئی ۔ 22 دسمبر 1994 کی رات ایودھیا کے ہندوؤں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت رام کی مورتی مسجد میں رکھ دی ۔23 دسمبر کو پولیس نے مسجد میں مورتی رکھنے کے جرم میں رام داس، رام سکل داس ،سدرشن داس سمیت تقریبا60 افراد کے خلاف انڈین پینل کورٹ کی دفعہ 448,295,147 کے تحت مقدمہ قائم کیا ۔

اس مقدمے کی بناء پر 26 دسمبر 1949 کو عدالت نے اس متنازعہ جگہ کی قرقی کا حکم دیا اور فیض آبادکی بلدیہ کے سپرنٹنڈنٹ پریہ دت رام کو اس متنازعہ جگہ کا نگران بنا دیا ۔ مسجد اور چبوترے کے بیچ بنائی گئی دیوار کے پھاٹک پر تالا ڈال دیا گیا ۔ اس دن سے یہ مسئلہ طول پکڑتا گیا۔ایودھیا کے ایک باسی گوپال سنگھ وشارد نے سول کورٹ میں ایک رٹ داخل کی ۔ 16 جنوری 1950 کو اس مقدمے میں یہ حکم جاری کیا گیا کہ وہاں سے نہ مورتیاں ہٹائی جائیں اور نہ پوجا بند کی جائے ۔

5 دسمبر 1950 کو پرم ہنس رام چند ر داس نامی ایک ہندو نے رام جنم بھومی کو آزاد کرانے کے لئے عدالت میں رٹ داخل کی ۔ سوا چار سال عدالتی کارروائی چلتی رہی ۔ 28 مارچ 1955 کو مسلمانوں نے ہائیکورٹ میں اپیل کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ 1961 میں سنی سینٹرل وقف بورڈ لکھنو بھی مسجد ، مندر معاملہ میں شامل ہو گیا۔

8 اپریل 1984 کو دہلی میں پہلی مرتبہ ہندوؤں کے مذہبی رہنماؤں کی بیٹھک ہوئی جس میں ملک کے کونے کونے سے ٹولیاں تیار کی گئیں اس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پھر مذہبی رہنماؤں کا اجلاس ہوا ۔یکم فروری 1986 کو فیض آباد کے ڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے نے فیض آباد کے ہی امیش چندر پانڈے کی درخواست پر بابری مسجد کو رام جنم بھومی قرار دیکر اس کا تالہ کھولنے کا حکم دے دیا ۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی ۔3 فروری 1986 ہی کو اس فیصلے کے خلاف فیض آباد کے رہنے والے محمد ہاشم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی جبکہ سنی وقف بورڈ نے بھی مئی 1986 کو ہائی کورٹ میں تالہ کھولے جانے کے خلاف ایک رٹ دائر کی ۔ مسجد میں تالا ڈالے جاتے وقت اوریکم فروری 1986 کو بھی مرکز اور یوپی میں کانگریس ہی اقتدار میں تھی۔ راجیو گاندھی وزیر اعظم اور اتر پردیش میں ویر بہادر سنگھ وزیر اعلیٰ تھے ۔

یکم فروری 1989کو الہ آباد میں ہندو مذہبی رہنماؤں کا تیسرا اجلاس ہواجس میں رام مندر کی تعمیر کے لئے بنیاد ڈالنے کی تاریخ 9 نومبر 1989 طے ہوئی لیکن 15 اکتوبر 1989 کو وٹھل مہادیو تار کنڈے نامی ایک شخص نے ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ وشو ہندوپریشد کی طرف سے ایودھیا میں 9 نومبر کو بابری مسجد سے سو میٹر دور مندر کے افتتاح کی اجازت دی جائے۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کی باقاعدہ اجازت دی جس پر بی جے پی کے لیڈروں نے دہلی میں جشن منایا ۔

28 جنوری 1990 کوآلہ آباد میں بی جے پی، وشوہندوپریشد ، بجرنگ دل ، سادھی سنگھ ، ہندو مہاسبھا اورآر ایس ایس کی مشترکہ میٹنگ ہوئی جس میں 14 فروری 1990 سے مندر کی تعمیری کام شروع کرنا طے ہوا لیکن اس وقت مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت تھی۔ ان کی دخل اندازی سے یہ کام شروع نہ ہو سکا ۔ اس وقت تک بی جے پی نے اس مسئلے کو سیاسی رنگ میں ڈھال دیا تھا۔

23جون 1990 کو ہری دوار میں بی جے پی کے دو روزہ کنونشن میں کے ایل اڈوانی نے ہندوؤں میں رام مندر کیلئے جذبات ابھارنے اور قوم میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے سوم ناتھ مندر سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ30 اکتوبر کو کارسیوا کا بھی اعلان کردیا گیا ۔ اڈوانی نے 25 ستمبر کو سوم ناتھ سے رتھ یاتر ا شروع کی ۔ رتھ یاترا کوایودھیا پہنچنے سے پہلے ہی 23 اکتوبر 1990 کو سمستی پور بہار میں روک لیا گیا ۔ وہاں کی حکومت نے اڈوانی کو گرفتار بھی کر لیا اور کارسیواکو بھی اجودھیا جانے سے روکا جس پر لوگ زبردستی ایودھیا میں داخل ہو گئے ۔ مسجد کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچایاجس کی مرمت بعد میں ہوئی ۔

اب تک بی جے ی مسجد مندر کے موقف کو پورے طورپر سیاسی رنگ دے چکی تھی ۔ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کر کے بی جے پی 1991 میں اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوئی ۔اس نے 24 جون 1991 کو سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں حکومت بنائی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ بنے۔

انہونے قتدار سنبھالنے کے ٹھیک چار مہینے بعد ہی بابری مسجد کے باہر کی 2.77 ایکڑ پر مشتمل اراضی کوجو مسجد کے نام وقف تھی ،سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا ۔ جس کے خلاف بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے مقدمہ دائر کیا ۔ اسمبلی ہاؤس کے سامنے دھرنا اور گرفتاری بھی دی گئی ۔

ادھر وشوہندو پریشد نے 21 اکتوبر 1991 کو مند رکی تعمیر کا کام باقاعدہ طور پر شروع کر دیا ۔ 9 نومبر 1989 کوشیلا نیاس ہوا جس کے بہانے چھ ، چھ انچ زمین کی کھدائی بھی کی گئی ۔

17 فروری 1992 کو بابری مسجد کی زمین پر تین طرف سے دیوار کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ۔پھر ایک ماہ بعد ہی اس متنازعہ زمین کے سامنے لگ بھگ تین ایکڑ زمین پر بنے مکانات اور مندروں کو ڈھانے کا کام شروع کر دیا گیا۔

9 جولائی 1992 کو بابری مسجد کے سامنے تعمیری کام شروع ہوا لیکن 26 جولائی 1992 کوعدالت کے حکم پر کام روک دیا گیا ۔ 31 اکتوبر کو دہلی میں ہندو مذہبی رہنماؤں کا جلاس ہوا جس میں کار سیوا کی اگلی تاریخ 6 دسمبر 1992 طے کی گئی۔انہی دنوں اترپرردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں مندر کے نام پر کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہو گا صرف وہاں کار سیوک بھجن اور کیرتن ہوں گے ۔

اس حلف نامہ کے بعد سے ہی پورے ملک میں ہندو انتہا پسند لاکھوں کی تعداد میں ایودھیا پہنچنے لگے اور 6 دسمبر 1992 کو دن کے پونے تین بجے بابری مسجد کا دایاں گنبد منہدم کر دیا گیا ۔ ٹھیک چار بجے دوسرا گنبد (بائیں طرف والا ) منہدم ہوا اور شام پانچ بجے مسجد کا تیسرا گنبد ( بیچ والا) گرا دیا گیا ۔ اس طرح صرف دو گھنٹہ یا ایک سو بیس منٹ میں 464 سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا ۔