بھارت: شہریت کے مجوزہ بل سے مسلمان تارکین وطن خارج

بھارت کے شہر گوہاٹی میں مجوزہ شہریت بل کے خلاف مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی اور آسام کے وزیر اعلیٰ کے پتلے جلا رہے ہیں۔ 8 جنوری 2019

بھارت کے ایوان زیریں نے ایک شہریت سے متعلق ایک متنازع بل منظور کیا ہے جس کے ذریعے مختلف مذہبی گروپوں مثلاً ہندو، سکھ اور مسیحی افراد کے لیے بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بنایا گیا ہے، لیکن اس قانونی مسودے میں سے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت میں آنے والے مسلمانوں کو خارج کر دیا گیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس مجوزہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل تفریق پیدا کرتا ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ شہریت مذہب کی بنیاد پر نہیں دی جا سکتی اور یہ بل ایک سیکولر ملک کے طور پر بھارت کے آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق ملک کے شمال مشرقی حصوں میں مجوزہ قانون سازی کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں جہاں ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن میں برہمی پائی جاتا ہے۔

وزیر داخلہ رج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ بل تفریقی نہیں ہے اور یہ ان اقلیتوں کے لیے ہے جنہیں اپنے ہمسایہ مسلم ملکوں میں مذہبی بنیادوں پر جبر اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملکوں میں رہنے والے ان اقلیتی گروپوں کے پاس کہیں جانے کے لیے بھارت کے سوا کوئی اور جگہ نہیں ہے۔

لیکن حکومت مخالف قانون سازوں کا کہنا ہے کہ شہریت سے متعلق قوانین میں کسی بھی تبدیلی کے سلسلے میں ملک کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یہ ایک سیکولر بل ہونا چاہیے۔

ایوان کے تری نامول کانگریس سے تعلق رکھنے والے ایک رکن سوگاتا راؤ نے کہا ہے کہ بل میں چھ مذہبوں کا ذکر کیوں ہے۔ اور صرف تین ملکوں کا نام کیوں شامل کیا گیا ہے۔

بل میں 31 دسمبر 2014 سے پہلے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں، سکھ، مسیحی، بودھ، جین اور پارسیوں کو شہریت دینے کے لیے کہا گیا ہے۔